یوکرین پر روسی حملہ: مسلمان ممالک کا رمضان کیسے متاثر ہوگا؟

فلسطین اور لبنان سے لے کر تیونس اور صومالیہ تک مسلمان ماہ رمضان کی آمد سے قبل پریشان ہیں کیونکہ عطیات دینے والے یورپی ممالک کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے اور شہریوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔

روس کے حملے نے یوکرین کو تو تباہی سے دوچار کیا ہی ہے، لیکن اس جنگ نے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کی معاشی  مشکلات بھی بڑھادی ہیں، جہاں ماہ رمضان کی آمد سے قبل لوگ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔

فلسطین اور لبنان سے لے کر تیونس اور صومالیہ تک مسلمان ماہ رمضان کی آمد سے قبل پریشان ہیں کیونکہ ان کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی ناکہ بندی کے شکار غزہ کی پٹی کی ایک رہائشی صباح فتوم نے کہا: ’اشیا کی زیادہ قیمتیں رمضان کی روح کو متاثر اور خراب کرتی ہیں۔‘

فلسطینی حکام کے مطابق اشیائے ضروریات کی قیمتیں 11 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔

45 سالہ صباح نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نے سنا ہے کہ قیمتیں اور بھی بڑھ جائیں گی۔ یہ لوگوں کے لیے ایک بوجھ ہے۔‘

روس اور یوکرین دنیا میں وسیع پیمانے پر اناج اگانے والے ممالک ہیں اور گندم، سبزیوں کے تیل اور مکئی جیسی کئی اہم اشیا کی برآمدات میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔

تاہم روس کے حملے اور بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں برآمدات کے بہاؤ میں رکاوٹ نے عالمی سطح پر بحران کے خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں، جو پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

غزہ کی پٹی میں ایک دکان چلانے والے حازم السقا نے اے ایف پی کو بتایا: ’درآمد شدہ مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ غیر معمولی طور پر مہنگی ہوگئی ہیں۔ تیل چار شیکل (ایک ڈالر) سے بڑھ کر سات شیکل (دو ڈالر) ہو گیا ہے اور اس اضافے کا اثر خریداری اور ڈیمانڈ پر پڑتا ہے۔‘

غزہ کے ایک رہائشی زاید خضر کہتے ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مصیبت ہے۔ آپ بازار دیکھیں لوگ بازار جاتے ہیں اور وہ کچھ نہیں خریدتے۔ سبزیوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔‘

زاید نے مزید کہا: ’دنیا میں ہونے والی کوئی بھی جنگ غزہ کی پٹی کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی یورپی ممالک اور عطیہ دہندگان ممالک سے آنے والی امداد پر انحصار کرتی ہے، لیکن آج ان یورپی ممالک نے اپنی تمام تر امداد یوکرین اور وہاں کے بے گھر افراد پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس کا اثر ہم پر پڑا ہے۔ آٹے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘

معاشی تجزیہ کار رائد حلس اس ساری صورت حال پر کہتے ہیں: ’غزہ کی پٹی کے 80 فیصد شہری امدادی ریلیف پر انحصار کرتے ہیں۔ لوگوں کو اضافی بوجھ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اس سال اپنی رمضان کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔‘

یوکرین میں جنگ نے عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن کو بھی شدید متاثر کیا ہے، جو 2014 کے بعد سے ہی شورش کا شکار ہے۔ یوکرین یمن کی گندم کی درآمدات کا تقریباً ایک تہائی سپلائی کرتا ہے اور اس جنگ نے یمن میں قحط کے خطرات بڑھا دیے ہیں۔

یمنی دارالحکومت صنعا کے ایک رہائشی محسن صالح کا کہنا تھا کہ ہر سال ہی رمضان سے پہلے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، ’لیکن اس سال ان میں دیوانہ وار اضافہ ہوا ہے، لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔‘

43 سالہ محسن صالح نے اے ایف پی کو بتایا: ’معاشی صورت حال بہت مشکل ہے۔ یمن میں زیادہ تر لوگ غریب اور تھکے ہوئے ہیں۔‘

2011 سے جنگ اور شورش کے شکار ملک شام میں بھی یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے کوکنگ آئل کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور اسے محدود مقدار میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

دمشق کی رہائشی 62 سالہ بسمہ شعبانی نے گذشتہ برس کووڈ 19 کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے سوچا تھا کہ صرف گذشتہ رمضان میں ہی ہم کم خرچ کریں گے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سال ہم اپنے دسترخوان سے اور بھی ڈشز کم کردیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم اب اپنے دسترخوان پر ایک سے زیادہ ڈش برداشت نہیں کرسکتے اور مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہ ایک ڈش بھی ہماری دسترس سے باہر ہو جائے گی۔‘

افریقی ملک تیونس میں بھی رمضان کی روایات نبھانا مشکل نظر آرہا ہے۔ ماہ رمضان میں خوراک کے عطیات ایک عام رواج ہے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ​​عطیہ کرنے والے خود اپنے لیے ہی بنیادی ضروریات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

طالب علم رضاکار محمد ملک برسوں سے رمضان خوراک کے عطیات جمع کر رہے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہماری خوراک کا عطیہ کرنے والی ٹوکری عام طور پر ایک گھنٹے میں بھر جاتی ہے لیکن اس سال ایسا نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہمیں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پہلے اپنے لیے کھانا تلاش کرنے دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا