معاشی حالات: وزیراعظم اور اتحادیوں کی مشاورت

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والےمشاورتی اجلاس میں ملک کی معاشی صورت حال کے حل اور نئے انتخابات منعقد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔

مارچ 2022 کی اس تصویر میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن، وزیراعظم شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دیکھا جاسکتا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورت حال پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشترکہ مشاورتی اجلاس آج بروز منگل طلب کر رکھا ہے، جس میں ملک کی معاشی صورت حال کے حل اور نئے انتخابات منعقد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔

اس سے قبل لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملکی و قومی معاملات پر اہم مشاورت کے بعد پیر کو واپس پہنچ کر اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتوں میں انہیں لندن میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت طلب کیا گیا ہے جب نئی حکومت پر کئی اہم فیصلوں پر فیصلوں میں تاخیر اور قوم کو اعتماد میں نہ لینے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم آفس کے مطابق شہباز شریف نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خالد مقبول صدیقی، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری سے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مشورہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی معاشی صورت حال کو مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے رکھا اور آئی ایم ایف مذاکرات پر ان سے حمایت مانگی، جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی سے مشاورت کرکے جواب دینے کا کہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کے حوالے سے بھی اتحادیوں سے بات چیت کی تاہم حکومتی اتحاد کی جانب سے کسی قسم کے حتمی فیصلوں کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیے: حکومت معاشی اقدامات اٹھانے میں تاخیر کیوں کر رہی ہے؟

ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ نئے انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں۔ اس ملاقات کے بعد خالد مقبول صدیقی نے میڈیا کے نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق حکومت امیر اور غریب میں تفریق رکھے۔ موٹرسائیکل والوں کے لیے قیمت الگ رکھی جائے اور جو گاڑیوں کی ٹینکی بھرواتے ہیں ان میں فرق کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عام انتخابات ہی ان مسائل کا حل ہیں۔ فریش مینڈیٹ لیا جائے۔ دیر کی تو بدنصیبی ہوگی جبکہ انتخابی اصلاحات ایک ہفتے میں ہوسکتی ہیں۔‘

خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ’ریاست کو بچانے کی خاطر مشکل فیصلے لینے چاہییں، سیاست کی قربانی دینا ہوگی۔‘

واضح رہے کہ دگرگوں ہوتی معاشی حالت، سٹاک مارکیٹ کی مندی اور ڈالر کی پرواز سے جہاں ملکی معیشت پر بدترین اثرات پڑ رہے ہیں وہیں نو منتخب مخلوط حکومت بھی تحریک انصاف اور میڈیا کے حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے کہ ’حالات ٹھیک نہیں کر سکتے تھے تو آئے کیوں؟ اب یا تو حالات ٹھیک کریں یا گھر جائیں۔‘

اس ساری صورت حال پر پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اسی ہفتے اسمبلیاں توڑی جانی چاہییں اور ستمبر تک الیکشن ہوجانے چاہییں کیونکہ کچھ علاقوں میں اکتوبر سے موسم شدت اختیار کر جاتا ہے اور انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے: آج پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھا رہے: مفتاح اسماعیل

انہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ سے ساڑھے چھ سو ارب روپیہ نکل چکا ہے۔ سیاسی بحران کی وجہ سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات پیسے نہیں دے رہے کیونکہ حکومت کی غیریقینی کیفیت ہے۔

بقول فواد چوہدری: ’جب ہم نے حکومت لی تھی تب بھی معاشی بحران تھا لیکن چونکہ نئی منتخب حکومت تھی اس لیے معاشی مدد مل گئی تھی، لیکن اب یہ معاشی بحران تب ہی حل ہوگا جب سیاسی بحران حل ہوگا اور سیاسی بحران کا حل 90 دن میں عام انتخابات ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ان تمام چیلنجز کا ملبہ اس وقت بظاہر تنہا ن لیگ پر ہے کیونکہ وزیراعظم اور معاشی ٹیم کے اراکین ن لیگ سے ہیں اور اقتدار کی پہلی صفوں میں ہیں۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے گذشتہ ہفتے سابق وزیراعظم نواز شریف نے سینیئر قیادت کولندن طلب کیا تھا تاکہ ان سارے چیلنجز کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں اور اس کے بعد انتخابات جبکہ تحریک انصاف جلد از جلد انتخابات چاہتی ہے، جس کی وجہ سے مسلسل جلسے منعقد کرکے موجودہ حکومت پر دباؤ بھی بڑھایا جا رہا ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر اور مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کے درمیان وزیراعظم شہباز شریف نے پالیسی سازوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ روپے کی گراوٹ کو روکنے اور ذخائر کو بہتر بنانے کے لیے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع حکمت عملی وضع کریں۔ انہوں نے پیر کو چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان کے ساتھ زوم کے ذریعے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ بات کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست