ومبلڈن میں روسی کھلاڑیوں پر پابندی، رینکنگ پوائنٹس معطل

یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں آل انگلینڈ لان ٹینس کلب نے پابندی عائد کی ہے کہ رواں سال کے تیسرے گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ سمیت روس اور بیلاروسی کھلاڑی برطانیہ کے تمام گراس کورٹ ایونٹس میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

 تین جولائی 2018 کو لی گئی اس فائل تصویر میں جنوب مغربی لندن میں آل انگلینڈ لان ٹینس کلب میں 2018 ومبلڈن چیمپئن شپ کے دوسرے دن مردوں کے سنگلز کے پہلے راؤنڈ کے میچوں کے دوران لوگ کھیل دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی/ فائل)

ومبلڈن انتظامیہ کی جانب سے روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے بعد ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز (اے ٹی پی) اور وومنز ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) نے ومبلڈن سے رینکنگ پوائنٹس لے لیے ہیں، یعنی اب ٹورنمنٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے پوائنٹس شمار نہیں ہوں گے۔ 

یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں آل انگلینڈ لان ٹینس کلب (اے ای ایل ٹی سی) نے پابندی عائد کی ہے کہ رواں سال کے تیسرے گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ سمیت روس اور بیلاروسی کھلاڑی برطانیہ کے تمام گراس کورٹ ایونٹس میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

اور ایک بیان میں مردوں کے عالمی رینکنگ سسٹم اور ہفتہ وار ٹینس ٹور چلانے والے اے ٹی پی نے مطلع کیا کہ ان کے پاس اس اعلان کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ کھلاڑیوں کو ومبلڈن میں کھیلنے سے رینکنگ پوائنٹس نہیں ملیں گے۔

بیان میں کہا گیا: ’کسی بھی قومیت کے کھلاڑیوں کا قابلیت کی بنیاد پر بلاتفریق ہمارے ٹورنامنٹ میں شامل ہونا، ہمارے ٹور کی بنیاد ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ومبلڈن کی جانب سے رواں موسم گرما میں روسی اور بیلاروسی کھلاڑیوں کے برطانیہ میں مقابلہ کرنے پر پابندی کا فیصلہ اصول اور اے ٹی پی رینکنگ نظام کی سالمیت کو کمزور کرتا ہے۔ یہ ہمارے رینکنگ کے معاہدے سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’انتہائی افسوس اور ہچکچاہٹ کے ساتھ ہمیں، 2022 کے لیے ومبلڈن سے اے ٹی پی رینکنگ پوائنٹس واپس لینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔‘

’مجموعی طور پر کھلاڑیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے قواعد و ضوابط اور معاہدے موجود ہیں۔ اس نوعیت کے یکطرفہ فیصلوں پر اگر توجہ نہ دی گئی تو باقی ٹور کے لیے ایک نقصان دہ مثال قائم ہوگی۔ انفرادی ٹورنامنٹوں کا امتیازی سلوک، 30 سے زیادہ ممالک میں کام کرنے والے ٹور کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔‘

اس کے کچھ ہی دیر بعد ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) نے اعلان کیا کہ وہ بھی مردوں کی گورننگ باڈی کے اس فیصلے پر عمل کرے گی۔

ان کے بیان میں کہا گیا: ’ہمارا اختیار کردہ موقف ان مساوی مواقع کے تحفظ کے متعلق ہے کہ ڈبلیو ٹی اے کے کھلاڑیوں کو انفرادی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔

’اگر ہم یہ موقف اختیار نہیں کرتے تو پھر یہ ہمارے اپنے بنیادی اصول سے انحراف ہوگا اور ڈبلیو ٹی اے دیگر تقریبات اور دنیا بھر کے دیگر خطوں میں قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی حمایت کرنے کی مثال بن جائے گا۔‘

اس کے جواب میں ومبلڈن کے منتظمین نے اس فیصلے پر ’گہری مایوسی‘ کا اظہار کیا اور اسے ’واحد قابل عمل فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ومبلڈن کے ایک بیان میں کہا گیا: ’ہم رواں سال چیمپیئن شپ میں روسی اور بیلاروسی کھلاڑیوں پر پابندی کے ہمارے فیصلے کے حوالے سے مختلف آرا کو سراہتے ہیں اور ہمیں متاثرہ افراد پر اس فیصلے کے اثرات پر گہرا افسوس ہے۔

تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے روس کے عالمی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے اقدام کے پیش نظر ہمارا خیال ہے کہ ہم نے عالمی سطح پر معروف کھیلوں کے ایونٹ اور برطانوی ادارے کے طور پر ومبلڈن کے لیے واحد قابل عمل فیصلہ کیا ہے اور ہم اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔‘

’ہم... اے ٹی پی، ڈبلیو ٹی اے اور آئی ٹی ایف (انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن) کی جانب سے چیمپئن شپ کے رینکنگ پوائنٹس کو ہٹانے کے فیصلوں پر اپنی گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم اس صورت حال، غیرمعمولی اور انتہائی حالات اور جس پوزیشن میں ہم ہیں، اس کے تناظر میں ان فیصلوں کو غیر متناسب اور اس ٹور میں مقابلہ کرنے والے کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے اختیارات پر غور کر رہے ہیں، اور ہم اس مرحلے پر اپنی پوزیشن بچا رہے ہیں۔ ہم اپنے گرینڈ سلیم کے ساتھیوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔‘

اگرچہ ومبلڈن سے رینکنگ پوائنٹس لے لیے گئے ہیں لیکن ومبلڈن کے علاوہ ایونٹس مثلا کوئینز اور ایسٹ بورن کے رینکنگ پوائنٹس برقرار رہیں گے کیونکہ اے ٹی پی اور ڈبلیو ٹی اے کا خیال ہے ہیں کہ ان ہفتوں کے دوران متبادل ٹورنامنٹ ہیں جن میں روسی اور بیلاروسی مقابلہ کرسکتے ہیں۔

عالمی نمبر دو دانیل میدویدیف اس پابندی سے متاثر ہونے والے سب سے ہائی پروفائل مرد ٹینس کھلاڑی ہیں۔ 26 سالہ روسی کھلاڑی نے 2021 کا یو ایس اوپن جیتا تھا۔

میدویدیف نے ٹربیون ڈی جینیو کو بتایا: ’ایک طرف تو یہ میری سمجھ میں آتا ہے اور دوسری طرف یہ مجھے غیر منصفانہ لگتا ہے۔ یہ ایک نازک صورت حال ہے کیونکہ اس سے ایک مثال قائم ہوتی ہے اور اس سے دیگر کھیلوں کے مقابلوں کو بھی مشکل صورتحال پیش آتی ہے۔

’ حد کہاں ہے؟ وہ کون سے قواعد ہیں جو ممکنہ اخراج کا باعث بنے؟ اے ٹی پی کے ساتھ اس پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے، ہم ٹینس کھلاڑی ہیں، جنہیں قانون کے لحاظ سے آزاد کارکن سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اس وقت برطانیہ میں برسر روزگار روسیوں کو کام کرنے کا حق حاصل ہے۔ لہذا، اگر مجھے ومبلڈن میں کھیلنے کا موقع ملے تو مجھے خوشی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مجھے یہ بھی قبول ہے۔‘

ستم ظریفی یہ ہے کہ میدویدیف اس فیصلے کی وجہ سے عالمی نمبر ایک بنتے نظر آ رہے ہیں، ومبلڈن مینز سنگلز چیمپیئن نوواک جوکووچ جو اس وقت اپنے روسی ہم عصر سے صرف 680 پوائنٹس آگے ہیں۔ اب وہ گذشتہ سال ایس ڈبلیو 19 میں جیتے گئے 2000 رینکنگ پوائنٹس کا دفاع نہیں کر پا رہے۔

انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن (آئی ٹی ایف) نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ جونیئرز اور وہیل چیئر ایونٹس کے لیے ومبلڈن کو رینکنگ پوائنٹس نہیں دے گی۔

ایک بیان میں اس نے کہا: ’آئی ٹی ایف نے طے کیا ہے کہ روس اور بیلاروسی کھلاڑوں پر پابندی عائد کرنے والے ومبلڈن کا انٹری کا معیار اس کے بین الاقوامی مقابلے کی سالمیت کو خطرے میں ڈالتا ہے، بالخصوص اس کے رینکنگ سسٹم میں، کیونکہ اس میں کھلاڑیوں کے لیے رینکنگ پوائنٹس اور انعامی رقم کے لیے مقابلہ کرنے کے متبادل مساوی مواقع کم ہیں۔‘

برطانیہ کی حکومت کی سیکریٹری ثقافت نیڈین ڈوریز نے گورننگ باڈیز پر زور دیا کہ وہ رینکنگ پوائنٹس ہٹانے کے فیصلے پر غور کریں۔

انہوں نے کہا: ’عالمی کھیلوں کی برادری، یوکرین میں (ولادی میر) پوتن کے غیر قانونی اور وحشیانہ اقدامات کی مذمت کرنے کے لیے بجا طور پر اکٹھی ہوئی۔‘

ان کے مطابق: ’روسی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے میں کھیل اور ثقافتی اداروں کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس فیصلے کے پیچھے کھڑے ہیں جو ومبلڈن اور ایل ٹی اے نے حق کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے کیا ہے۔

’ہمیں آج کے فیصلے پر گہرا افسوس ہے اور اے ٹی پی، ڈبلیو ٹی اے اور آئی ٹی ایف پر زور دیتے ہیں کہ وہ چیمپیئن شپ میں رینکنگ پوائنٹس پر اپنے موقف پر غور کریں۔

اس سے ولادی میر پوتن اور یوکرین کے عوام کو صحیح پیغام نہیں جاتا۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل