امریکہ میں مسلح ڈکیتی کے مقدمے میں 17 سال جیل میں گزارنے والے شہری کو بالآخر رہا کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے یہ جرم کیا ہی نہیں تھا۔ ان کی بے گناہی نئے فنگر پرنٹس کی شواہد سے ثابت ہوئی۔
گذشتہ ہفتے رائل کلارک جونیئرنامی شہری اپنی 41 ویں سالگرہ کے ایک دن بعد امریکی ریاست لویزیانا کی جیل سے باہر آئے۔ انہیں 2002 میں ان کی 25 ویں سالگرہ کے دن ڈکیتی کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
آنکھوں میں آنسو لیے رائل کلارک جونیئر نے رپورٹروں اور ہمدردی رکھنے والوں کے اجتماع سے بات چیت میں کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کیا کہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کبھی کبھار تو انہوں نے امید ہی چھوڑ دی تھی کہ انہیں 49 برس کی قید سے کبھی رہائی ملے گی۔
رائل کلارک جونیئر نے کہا: ’میں یہاں بیٹھ کرآپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میں نے رہائی کی امید چھوڑ دی تھی۔ لیکن میں غصے کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دے سکتا۔ میں یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ میرا ماضی میرا مستقبل ہو۔‘
رائل کلارک کو 2001 میں برگر کنگ ریستوران پر مسلح ڈکیتی کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف واحد گواہ ریستوران کے ایک ملازم تھے جنہوں نے کلارک کی ڈاکو کی حیثیت سے شناخت کی جو بلآخر غلط نکلی۔
فلاحی ادارے ’انوسینس پروجیکٹ نیو آرلینز‘ کے وکلا کی ایک ٹیم نے عدالتوں پر زور دیا کہ جائے واردات سے ملنے والے فنگرپرنٹس کا دوبارہ معائنہ کیا جائے۔ یہ فنگرپرنٹس سرکاری ڈیٹابیس سے گزارنے کے بعد جیسی پیری نامی ایک اور شخص کے ثابت ہوئے جسے پہلے ہی دوسری ڈکیتیوں کا مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔
مقامی ڈسٹرکٹ اٹارنی پال کونک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انصاف کے معاملے میں ان کی ذمہ داری سزا سنائے جانے پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ’جب ثبوت سے پتہ چل جائے کہ کسی کو غلط طور پر سزا سنائی گئی ہے تو میرا دفتر اس ناانصافی کے ازالے کے لیے قدم اٹھائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کلارک کے بیٹے، جن کا نام بھی بھی رائل ہے، نے جیل کے باہر اپنی زندگی میں والد کی عدم موجودگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہ سکتیں تھیں کیونکہ انہیں کام کرنا پڑتا تھا۔
رائل کلارک سوم بہت چھوٹے تھے جب ان کے والد کو سزا ہوئی۔
اپنے بیٹے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے کھڑے کلارک کی آنکھوں سے آنسوں بہتے رہے تھے۔ رائل کلارک سوم نے کہا: ’میرے والد کو میرے ساتھ ہونا چاہییے تھا تاکہ وہ میری رہنمائی کرتے۔‘
’انوسینٹ پراجیکٹ‘ سے وابستہ کیا ہال ہیز نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں ناکامی سے پتا چلتا ہے کہ عینی شاہد کی گواہی کس حد تک ناقابل اعتبار ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رائل کلارک جونیئرکا مقدمہ عینی شاہد کی جانب سے شناخت کی شہادت کے ناقابل انحصار ہونے کی ایک اور مثال ہے۔ اس سے ججوں کی جانب سے جیوریوں کو وہ تمام ضروری طریقے اختیار کرنے کی اجازت دینے کی اہمیت ثابت ہوتی جن طریقوں کی مدد سے شہادت کا درست انداز میں جائزہ لیا جا سکے تاکہ کسی کی آزادی سلب کرنے کے لیے صرف کسی ایسی شہادت پر انحصار کرنے کے خطرے سے بچا جا سکے جیسا کہ رائل کلارک کے معاملے میں کیا گیا۔
کلارک اس سال ریاست لویزیانا میں فنگرپرنٹس کی شہادت کی بنیاد پر الزام سے بری ہونے والے دوسرے شخص ہیں۔
مارچ میں ریپ کے ایک مقدمے میں آرچی ولیئمز نامی امریکی شہری کو 36 برس بعد رہا کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے حکام نے بالآخر اتفاق کر لیا تھا کہ ان کے مقدمے میں فنگرپرنٹس کی شہادت کو اپ ڈیٹ کئے گئے سرکاری ڈیٹابیس سے گزارا جائے، جس کے بعد ان کی بے گناہی ثابت ہوئی۔
’انوسینس پراجیکٹ‘ نے کہا ہے کہ اب ریاست کو ایسے ڈیٹابیسز تک قیدیوں کی رسائی کو ان کا قانونی حق بنانا چاہییے جس کی مدد سے وہ خود پر لگا الزام غلط ثابت کروا سکیں۔
لیکن کلارک کے معاملے میں جیفرسن پیرش کے شیرف کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ صرف نئی تکنیک کی بدولت برگر کنگ ریستوران میں ڈکیتی کے بعد ملنے والے فنگرپرنٹس کی شہادت کے دوبارہ جائزے کے قابل ہوئے ہیں۔ 2002 میں یہ سہولت میسر نہیں تھی۔
© The Independent