احد چیمہ: ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ سے جیل اور پھر وزیراعظم کے مشیر

احد چیمہ نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے گذشتہ ادوار میں نمایاں پوزیشنز پر کام کیا۔ شہباز شریف کے قریب ہونے اور کئی محکموں کی باگ ڈور سنبھالنے پر انہیں ڈیفیکٹو چیف منسٹر بھی کہا جاتا تھا۔

احد چیمہ وہ پہلے افسر ہیں، جنہوں نے دوران سروس تین سال جیل میں گزارے (فوٹو: ٹوئٹر)

پنجاب کے سابق بیوروکریٹ احد خان چیمہ کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر مقرر کردیا گیا ہے۔

ایوان صدر کے اعلامیے کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 93 ون کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر احد چیمہ کی بطور مشیر وزیراعظم تعیناتی کی منظوری دی۔

’ڈیفیکٹو چیف منسٹر ‘

احد چیمہ نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے گذشتہ ادوار میں نمایاں پوزیشنز پر کام کیا۔ شہباز شریف کے قریب ہونے اور کئی محکموں کی باگ ڈور سنبھالنے پر انہیں ڈیفیکٹو چیف منسٹر بھی کہا جاتا تھا۔

پنجاب کے تمام بڑے منصوبے ان کی زیر نگرانی مقررہ مدت سے قبل مکمل ہوئے، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب ’شہباز سپیڈ‘ کا لقب بھی ملا۔

جب 2018 کے عام انتخابات سے قبل پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور قریبی افسران کے خلاف نیب کا گھیرا تنگ ہوا تو سب سے پہلی گرفتاری احد چیمہ کی ہی ہوئی تھی۔

ان کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت اور نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سمیت دیگر افسران کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف کیسز بنائے گئے۔

احد چیمہ نے مختلف مقدمات میں تین سال جیل میں گزارے اور اس دوران انہیں عدالت میں شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کے دعوے بھی سامنے آئے تھے۔

ان کے دورانِ حراست کیسوں میں تفتیش بھی سست روی کاشکار رہی تاہم عدالت سے بے گناہ قرار دیے جانے کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

احد چیمہ نے کچھ دن قبل ہی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور اب انہیں وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر مقرر کردیا گیا ہے، جس کا نوٹیفکیشن صدر عارف علوی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔

احد چیمہ کون ہیں؟

احد چیمہ کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے، لیکن ان کے والد تین بیٹوں کو ساتھ لے کر لاہور آگئے اور گارڈن ٹاؤن میں 10 مرلے کے گھر میں رہائش اختیار کی۔ وہ لاہور میں سکول ٹیچر تھے۔

لاہور کے سول سیکرٹریٹ کی خبروں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی بابر ڈوگر کے بقول وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے گریڈ 20 کے افسر تھے۔

احد چیمہ وہ پہلے افسر ہیں، جنہوں نے دوران سروس تین سال جیل میں گزارے۔

بابر ڈوگر کے بقول انہیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے 2005 میں تعلیم کے پروگرام ’پڑھا لکھا پنجاب‘ کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا لیکن ان کا نام اس وقت ابھر کر سامنے آیا، جب شہباز شریف نے وزیراعلیٰ بنتے ہی 2008 میں احد چیمہ کو اٹھارویں سکیل کا افسر ہونے کے باوجود 20، 21 سکیل کے افسران کو نظر انداز کرکے سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن پنجاب تعینات کردیا۔

اس معاملے پر بیوروکریسی میں کافی کھلبلی مچی مگر انہیں عہدے سے ہٹانے کی بجائے مزید اختیارات مل گئے اور انہیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سربراہ کا چارج بھی دے دیا گیا۔

مزید پڑھیے: وزیراعلیٰ پنجاب، بیوروکریسی میں اختیارات کا جھگڑا

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اس وقت شہباز شریف کے تین افسر قریبی اور قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔ نبیل اعوان، جو آج کل وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے پرنسپل سیکرٹری ہیں۔ توقیر شاہ، جنہیں وزیراعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا اور تیسرے احد چیمہ، جنہوں نے سروس جاری رکھنے سے انکار کیا تو وزیراعظم نے انہیں اپنا مشیر مقرر کرلیا۔

احد چیمہ کی ماضی میں غیر معمولی ذمہ داریاں

صحافی بابر ڈوگر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ احد چیمہ کو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے ساتھ ساتھ میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، لینڈ ریکارڈ کمپوٹرائزیشن، نندی پور پاور پراجیکٹ، سولر انرجی کے منصوبے اور آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔

انہوں نے قانونی پیچیدگیوں کے باوجود کئی منصوبے قبل از وقت مکمل کیے۔ جب 2013 میں ایل ڈی اے آفس میں آتشزدگی کا واقع پیش آیا تب بھی وہی ڈی جی ایل ڈی اے تھے، اس لیے یہ تاثر سامنےآیا کہ میٹرو بس منصوبہ کا ریکارڈ آگ میں جلادیا گیا۔

بابر کہتے ہیں کہ ’احد چیمہ نے مسلم لیگ ن کے ادوار میں صوبے کی پوری بیورو کریسی کو اپنی مٹھی میں کر رکھا تھا۔ ہر شعبے میں افسران کی تعیناتی میں بھی ان کی رائے لی جاتی تھی جبکہ فواد حسن فواد نواز شریف کے قریب تھےاور وفاق میں ان کی مرضی سے افسران تعینات ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو نیب نےگرفتار کیا تو سابق پی ٹی آئی حکومت اور بیورو کریسی میں اچھے ورکنگ تعلقات قائم نہ ہوسکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’احد چیمہ کرپٹ تھے یا نہیں یہ تو ثابت نہیں کیا جاسکتا البتہ انہیں دیگر شعبوں میں ذمہ داریاں اداکرنے کی 25 لاکھ روپے تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔‘

نیب نے ان پر سات ارب مالیت اور زرعی زمینوں کی خریداری پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بھی بنا رکھا ہے۔

احد چیمہ کی گرفتاری اور مقدمات

احد چیمہ کو دو مرتبہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل لگایا گیا۔ جب 2011 میں پاکستان کی پہلی میٹرو بس سروس بنانے کاآغاز ہوا تو اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی احد چیمہ ہی تھے۔

خیال رہے کہ یہ پراجیکٹ 11 ماہ میں مکمل ہوا تھا۔ اس کے بعد انہیں پنجاب حکومت کے بجلی کے منصوبوں کی کمپنی قائداعظم تھرمل پاور کا سی ای او بنایا گیا اور گذشتہ دور حکومت میں لگائے جانے والے تیز ترین بجلی کے منصوبوں کی نگرانی بھی وہی کر رہے تھے۔

ان منصوبوں کو چین نے سرکاری طور پر ’پنجاب سپیڈ‘ کا نام دیا تھا کیونکہ یہ تمام منصوبے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری سے بنائے گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھیے: شہباز شریف کا پرفارمنس ریکارڈ بمقابل ’سازش‘ بیانیہ

شہباز شریف کے دوسرے دور حکومت کے اختتام پر فروری 2018 میں نیب نے انہیں ان کے سرکاری دفتر سے گرفتار کیا اور ان پر دو مقدمات چلائے گئے۔ ایک مقدمہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی جبکہ دوسرا آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تھا۔

ان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر کئی بار سرکاری افسران بھی اظہار یکجہتی کے لیے عدالت میں ان کے ساتھ آئے اور اس پر چیف سیکرٹری کے سامنے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سامنے بھی یہ تحفظات رکھے تھے۔

احد چیمہ کے ماتحت کام کرنے والے پنجاب کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انہیں بھی نیب نےگرفتار کیا اور احد چیمہ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن انہوں نے کہا کہ سرکاری کاموں میں کرپشن کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘

 اگر احد چیمہ نے کوئی غیر قانونی کام یا کرپشن کی ہوتی تو ہمارے اوپر کئی انتظامی چیک ہوتے ہیں۔ آڈٹ کا محکمہ الگ سے ہوتا ہے تو وہاں بھی ان کے خلاف ریکارڈ موجود ہوتا۔ یہ کیسے ممکن ہےکہ سرکاری کاموں میں کوئی ہیر پھیر کرسکے۔‘

مذکورہ افسر نے مزید بتایا کہ ’نیب کی تفتیشی ٹیم نے سوال کیا کہ من پسند ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دے کر کمیشن بھی لیا گیا تو میں نےجواب دیا کہ ہر ٹھیکہ ضابطے کے مطابق کمپنیوں کو ٹینڈر کے بعد دیا گیا، جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ لاگت اور ادائیگیوں کی تفصیلات بھی محکمہ خزانہ کے پاس موجود ہیں۔ وہاں چیک کریں، کوئی تضاد نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست