پشاور: اغواکاروں کا سہولت کار گرفتار، بچی بازیاب

پولیس کے مطابق، پکڑے جانے والے ملزم کے علاوہ اس گروہ کے سرغنہ اغواکار میاں بیوی ہیں جن کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے اور انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔

5 مارچ 2022 کو پولیس اہلکار پشاور کے ایک بازار میں پہرہ دے رہے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گذشتہ روز پولیس حکام کے مطابق انہوں نے چار سالہ بچی کو بازیاب کروا کر اغواکار گروہ کے ایک سہولت کار کو گرفتار کرلیا ہے جو رکشے میں مبینہ طور پر بچوں کو اغوا کرتا تھا۔

پولیس کے مطابق پکڑے جانے والے ملزم کے علاوہ اس گروہ کے سرغنہ میاں بیوی ہیں جن کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے اور انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔

تھانہ رحمٰن بابا کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے کا مقدمہ 22 مئی کو بچی کے والد عزیز خان کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنہوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی والدہ کے ساتھ ماموں کے گھر ایک شادی پر گئی تھی اور وہیں سے وہ اغوا ہوگئی۔

محرر خان محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پولیس کافی چھاپے مارتی رہی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اغواکار جگہیں تبدیل کرتے رہے اور یہ بھی کہ اس کیس میں موبائل بھی استعمال نہیں ہوا تھا۔‘

بچی کیسے بازیاب ہوئی؟

تھانہ رحمٰن بابا حکام کے مطابق اگرچہ اغواکار کرائے کے مکان بدلتے رہے لیکن جس مکان سے بچی بازیاب ہوئی وہاں اغواکار تقریباً 15 دن سے مقیم تھے۔

اس دوران بچی مسلسل دن رات روتی رہی، جس کی وجہ سے پڑوسیوں کو شک ہوا اور انہوں نے علاقے کے ایک پولیس اہلکار کو معاملے سے آگاہ کیا۔

محرر خان محمد نے بتایا کہ یہ پشاور کا علاقہ شاہ پور تھا اور ایک پولیس اہلکار نے جو وہیں کا رہنے والا تھا سادہ لباس میں مکان پر چھاپہ مارا۔

’سپاہی نے ان سے دریافت کیا کہ بچی کیوں رو رہی ہے۔ وہاں موقع پر اغواکار جوڑے کے اپنے دو بچے بھی موجود تھے، جبکہ بچی کو انہوں نے پولیس کے دستک دینے پر پہلے سے ہی پلنگ کے نیچے چھپا دیا تھا، وہیں سے پولیس اہلکار کو شک ہوا اور تھانے کو اطلاع دینے پہنچ گیا۔ اسی دوران میاں بیوی اپنے بچوں کو لے کر بھاگ چکے تھے جبکہ بچی اور رکشہ ادھر ہی چھوڑ گئے تھے۔‘

تھانہ رحمٰن بابا کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اعزاز عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گرفتار ملزم نے خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خاتون اغواکار کو بہت پہلے سے جانتے تھے اور ان کے ساتھ مراسم بھی تھے۔‘

ان کے مطابق: ’اس بات پر ملزم اور ان کی بیوی کے درمیان کئی جھگڑے بھی ہوئے ہیں اور ان کی بیوی نے ایک دن انہیں گھر سے غائب پاکر انہیں ملزمہ کے گھر دیکھا تھا۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ دیگر تفصیلات جیسے کہ اغواکار بچوں کو اغوا کرکے کہاں اور کس مقصد کے لیے جاتے تھے اور ان کے ساتھ مزید کتنے لوگ ملے ہوئے ہیں، یہ تمام معلومات وہ ان کی گرفتاری پر جاننے کی کوشش کریں گے۔

ایس ایچ او اعزاز عالم نے بتایا کہ اغواکار میاں بیوی کے نزدیکی رشتہ داروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ دونوں ملزمان کی گرفتاری میں مدد کریں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بازیاب بچی کے والد عزیز خان سے بھی موبائل پر رابطہ کرنے کی کوشش، تاہم ان کا نمبر مسلسل بند رہا۔

جبکہ ایس ایچ او اعزاز عالم نے بتایا کہ بچی کے اغوا کے بعد تقریباً 40 دن اس کی والدہ کو بے ہوشی کے دورے پڑتے رہے۔ انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور ان کو نیند کی دوا کھلا کر سلایا جاتا تھا۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ بچی کی صحت بالکل ٹھیک ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اغواکار ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں اغواکار میاں بیوی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور نہ صرف وہ خود بلکہ ان کے دیگر رشتہ دار بھی رکشہ چلانے کے کام سے وابستہ تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان