آخر اتم سنگھ کو کیا سوجھی؟

صحرا تھر میں رنگلیو گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ جنگل میں کوئی مشکوک سرگرمی یا رات کو گاڑی کی کوئی روشنی نظر آئی یا فائر ہوا تو ایک دوسرے کو فوری آگاہ کریں گے۔

پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے علاقے منگلوٹ، کالاباغ، پنجاب کے صحرائے چولستان سے لے کر سندھ کی کھیرتھر کی پہاڑیوں کے علاقوں میں چنکارا ہرن ہیں۔ (تصویر: پیکسلز)

اتم سنگھ کو کیا پڑی تھی کہ وہ جیپوں کا پیچھا کرتا، پھر جیپ روکنے کے لیے اپنی جیپ کی اس سے ٹکر مارتا، اپنی ذاتی جیپ کا نقصان کراتا اور اگر فائرنگ میں اس کی جان چلی جاتی تو حکومت زیادہ سے زیادہ کیا کرلیتی۔ ایک دو لاکھ اس کے اہل خانہ کو دیتے، چند دن اس کا یہ کارنامہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی زینت بنتا اور بس۔

لیکن اگر اتم سنگھ بھی میری طرح ہی سوچتے تو کیا ہوتا؟

ہوتا یہ کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی کہ صحرائے تھر میں ہرنوں کا غیر قانونی شکار ہو رہا ہے۔ اگر مقامی افراد کی بات پر جائیں تو ان کے مطابق یہ غیر قانونی شکار چند ہفتوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ تین چار سال سے ہو رہا ہے۔

کئی بار ان شکاریوں کا تعاقب کیا اور پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔

وہ کام جو محکمہ جنگلی حیات کے کرنے کا تھا اس کام کی ذمہ داری مقامی افراد نے اپنے کندھوں پر لے لی۔ کیوں؟ مقامی لوگوں کے مطابق محکمے کے افراد اول تو اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ شکار ہو رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اس غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لیے اقدامات لے سکیں۔

تو پھر کیا کیا جاتا؟ وہی جو مقامی افراد نے کیا اور جس کے نتیجے میں اتم سنگھ نے ان شکاریوں کو پکڑ لیا جنہوں نے سات ہرنوں کا شکار کیا۔ صحرا تھر میں رنگلیو گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ جنگل میں کوئی مشکوک سرگرمی یا رات کو گاڑی کی کوئی روشنی نظر آئی یا فائر ہوا تو ایک دوسرے کو فوری آگاہ کریں گے۔

پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے علاقے منگلوٹ، کالاباغ، پنجاب کے صحرائے چولستان سے لے کر سندھ کی کھیرتھر کی پہاڑیوں کے علاقوں میں چنکارا ہرن ہیں۔ اس کے علاوہ سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ میں بھی چنکارا ہرن موجود ہیں۔ لیکن ان کی تعداد محض 585 ہے۔

جس جنگل میں ہرنوں کا شکار کیا گیا اس کو تحفظ حاصل ہے۔  ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1983 میں پسنی اور اوڑماڑہ کے درمیان 10 سے 12 چنکارا ہرن نظر آ جاتے تھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی ان کا اتنا شکار کیا گیا کہ اسی علاقے میں مشکل ہی سے کوئی چنکارا ہرن دکھائی دیتا ہے۔

تاہم وائلڈ لائف ماہرین کا خیال ہےکہ چنکارا ہرن کی تعداد تقریباً 3000 تک ہے کیوں کہ چنکارا ہرن کی بڑی تعداد چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارکس میں ہے۔

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے کہا کہ چنکارا ہرن کو معدومیت کا خطرہ لاحق نہیں ہے کیوں کہ دنیا بھر میں اس کی تعداد کافی ہے۔

دو دہائیوں سے بڑھتے ہوئے موسمی تبدیلی کے اثرات اور انسانی وجوہات کی وجہ سے صحرائے تھر کی جنگلی حیات اور ماحولیات خطرے میں ہیں۔

ایک طرف قحط کی وجہ سے بھوک اور پیاس ہے دوسری طرف غیر قانونی شکار کے باعث جنگلی جانور خاص طور پر چنکارا ہرن کی نسل خطرے میں ہے۔ موسمی تبدیلی کے باعث تھر میں کنڈی، کونبھٹ کے ساتھ پیلوں، تھوہر، باؤری، گگرال کے درخت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان درختوں کے جنگلات چنکارا کی رہائش ہوا کرتے تھے اور ان درختوں کے نیچے گھاس چنکارا کی خوراک۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحرائے تھر میں چند سال قبل بدترین قحط سالی دیکھی گئی۔ بارش نہ ہونے کے باعث انسان اور جنگلی حیات دونوں ہی بری طرح متاثر ہوئے۔ بارش صحرائے تھر میں نعمت ہے۔ بارش ہوتے ہی بھوری زمین ہری بھری ہو جاتی ہے اور یہ ہریالی انسانوں اور جنگلی حیات دونوں ہی کے لیے اچھے وقت کی نوید ہوتی ہے۔ بارش کے ساتھ ہی بہت سے جانوروں کا میٹنگ سیزن کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔

لیکن اس ہریالی کے ساتھ شکاری بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ صحرائی لوگوں کے پاس روایت ہے کہ صحرا میں چنکارا بارش کا پانی پیتا ہے اور جہاں قدرتی تالاب واقع ہیں وہ وہاں ضرور آتے ہیں اور شکار ہو جاتے ہیں۔

صحرائے تھر کے لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان سات ہرنوں کو نہ تو بچا سکے لیکن ان شکاریوں کو پکڑ کر کم از کم آنے والے کئی عرصے تک کئی دیگر ہرنوں کو ضرور بچا لیا ہے۔

2017 سے 940 کلومیٹر کے تھرپارکر میں ہرن اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے اور اس علاقے کو چنکارا وائلڈ لائف سینکچوئری کا نام دیا گیا ہے۔ شکار پر پابندی شمال میں وجاٹو سے لے کر چاہلیار تک اور مشرق میں چاہلیار سے لے کر بھوریلو تک، جنوب میں بھوریلو سے لے کر مٹھی تک اور مغرب میں مٹھی سے لے کر وجاٹو تک یہ پابندی عائد ہے۔ 

رہی بات ان شکاریوں کی تو جانتے بوجھتے یہ غیر قانونی کام کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایسے لوگ بھی شاید کچھ عرصے کے لیے شکار کے لیے تھرپارکر کا رخ نہ کریں۔

لیکن انسان اسی وقت غیر قانونی کام کرتا ہے جب اس کو اس بات کی یقین دہانی ہو یا قوی یقین ہو کہ اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔  لیکن اب ان لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ محکمے کے لوگوں کے ساتھ تو شاید ہاتھ ملایا جا سکتا ہے لیکن یہاں کی مقامی آبادی جو صحرائے تھر کے ہرن اور موروں کا تحفظ اپنا فرض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسی علاقے کے باسی ہیں کسی بھی ایسے فرد سے ہاتھ نہیں ملائیں گے جو انہی کےعلاقے کے باسی کا شکار کرنے آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ