پی ٹی آئی کی جیت پر سیاسی پنڈتوں کو 220 وولٹ کا جھٹکا

اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی طرح پاکستان کے صحافیوں کے ساتھ ان پارٹیوں کے نام بھی لکھے جائیں جن سے وہ وابستہ ہیں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو کہ مذکورہ صحافی کس کیمپ کا ہے۔

سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 26 مئی، 2022 کو اسلام آباد میں ایک ریلی کے دوران اپنے حامیوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے ہیں (اے ایف پی)

اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی طرح پاکستان کے صحافیوں کے ساتھ ان پارٹیوں کے نام بھی لکھے جائیں جن سے وہ وابستہ ہیں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو کہ مذکورہ صحافی کس کیمپ کا ہے۔

وگرنہ دیکھنے والے صحافیوں کو نجومی سمجھ کر سوال پوچھتے رہیں گے۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا کے صحافی ٹماٹر کے ریٹ سے لے کر جنگی جہاز کے سودوں تک پر بیک وقت ایک ہی سکرین پر بات کرتے ہیں۔ یہی حالت انتخابات کا بھی ہے۔

وہ صحافی جو پورے انتخابی مہم کے دوران کوہسار مارکیٹ سے باہر نہیں گئے آپ کو ہر حلقے کی مستند رپورٹ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ پڑوسی ملک بھارت میں انتخابی عمل اور نتائج کے لیے سیفولوجی (psephology) یعنی انتخابات کا سائنسی تجزیہ کرنے والے صحافیوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جیسے یوگندر یادیو لیکن ہمارے ہاں سیفولوجی کو دیگر علوم کی طرح جوتے کی نوک پر رکھ کر اپنے آزمودہ نسخوں سے ہی تجزیے کیے جاتے ہیں۔

جب نتائج آ جاتے ہیں تب اسی فارمولے سے ایک پورشن نکال کر دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے تو پیشن گوئی کی تھی۔

اس کے لیے وہ اکثر ’اگر‘ کا لفظ لگا کر اپنے ہاتھ صاف رکھتے ہیں۔ یقین مانیے کہ جو لوگ بشمول ’ن لیگی‘ صحافیوں کے اس وقت ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اگر ن لیگ جیت جاتی تو ان کے تجزیے کیا ہوتے۔ ملاحظہ کریں:

’ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ نیوٹرل کی سپورٹ کے بغیر تحریک انصاف یونین کونسل تک نہیں جیت پائے گی۔‘

’میں نے تو اپنے کالم میں صاف لکھا تھا کہ تحریک انصاف کا تجربہ ناکام ہوچکا اور اب اس کا ملبہ خود بنانے والوں پر گرے گا۔‘

’ن لیگ کا چہرہ اب مریم نواز ہیں انہوں نے جس طریقے سے اکیلے ہجوم اکٹھا کیا وہ ناقابل یقین تھا۔ دیکھیں گلی گلی میں ن لیگ کا نیٹ ورک موجود ہے۔ وہ پنجاب میں سیاست کے ان داتا ہیں۔

’جب پی ٹی آئی عروج پر تھی اور اسٹیبلشمنٹ ساتھ تھی تب ن لیگ نے پی ٹی آئی کو پیر جمانے نہیں دیے۔‘

’پنجاب میں جو تباہی عثمان بزدار نے کی تھی اس کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت دیوانے کا خواب ہی تھی۔ دیکھیں جب تحریک انصاف سے علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے اے ٹی ایم چلے گئے اس کے بعد تحریک انصاف کا انتخاب جیتنا ناممکنات میں آتا تھا۔‘

’مریم نواز کی ٹیم نے جس طرح سوشل میڈیا پر عمران خان کی ٹیم کو چاروں شانے چت کر دیا تھا اب اس کے بعد ووٹر کا صرف پولنگ سٹیشن پر جانا باقی رہ گیا تھا۔‘

’دیکھیں میں نے پیشن گوئی کی تھی کہ ن لیگ پنجاب میں کلین سویپ کرے گی۔ پروڈیوسر کو کہوں گا کہ وہ فلاں تاریخ کو چلنے والا میرا کلپ چلا دے۔ پہلے وہ کلپ دیکھتے ہیں پھر آگے بات کرتے ہیں۔‘

’جناب اب آپ آگے دیکھیں گے کہ عمران خان مزید کن مشکلات کا شکار ہوں گے۔ فرح گوگی اور عثمان بزدار جیسے سکینڈلز نے تحریک انصاف کو تباہی سے دوچار کیا۔ نوازشریف گو لندن میں بیٹھے ہیں لیکن وہ تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں خود شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انتخابی سیاست کیا ہوتی ہے ان سے سیکھنا چاہیے۔

’میں نے تو مریم نواز اور شہباز شریف کو ایک ہفتہ قبل ایک عشائیہ کے موقعے پر مبارک باد دی تھی۔‘

’لاہور پر راج صرف شریف بردران ہی کر سکتے ہیں۔ وہ لاہور سے جڑے ہوئے ہیں ان کا نیٹ ورک وارڈ کی سطح پر موجود ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ صاف شفاف الیکشن ہوں اور پنجاب میں ن لیگ سے کوئی بازی لے جائے۔ ن لیگ واحد وفاقی جماعت ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے۔ پچھلے دنوں اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی اعلیٰ عہدے دار سے میری بات ہوئی۔ یقین مانیے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نادم ہیں۔ انہوں نے نوازشریف کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور پاکستان کو سنبھالیں۔‘

’پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کے ساتھ بزدار پلس کے نام پر جو کچھ ہوا اسٹیبلشمنٹ نے برملا اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تو بزدار پلس کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ ن لیگ نے ثابت کر دیا کہ وہ حقیقی عوامی جماعت ہیں۔ اب اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ آئندہ انتخابات میں ن لیگ ہی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر آئے گی۔‘

’چونکہ پنجاب ہی وفاق میں حکومت کا فیصلہ کرتا ہے اس لیے اگلا وزیراعظم ن لیگ سے پکا۔ میں آج یہ کہہ رہا ہوں۔ اس بات کو نوٹ کر لیں۔ ہاں البتہ مریم نواز خود وزیراعظم بنیں گی یا شہبازشریف ہی ڈرائیونگ سیٹ پر رہیں گے اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت کی ضرورت ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ شہبازشریف نے جس حالت میں حکومت سنبھالی اور ملک کو لے کر آگے بڑھے اس سے مقتدرہ میں اطمینان پایا جا رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر پٹڑی پر چلنے لگا ہے۔‘

یقین مانیے کہ یہ باتیں وہ سب لوگ کر رہے ہوتے جو اس وقت ن لیگ کی خامیاں گنوا رہے ہیں۔ یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ ن لیگ کو حکومت نہیں سنبھالنی چاہیے تھی۔

نوازشریف کی یہی خواہش تھی۔ بھائی اگر ان کی یہی خواہش تھی تو پھر کیا شہبازشریف ان کی خواہش کے خلاف گئے؟ یہ تو ہو نہیں سکتا تو پھر مانیے کہ آخری فیصلہ انہی کا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ باتیں کہ وہ باہر بیٹھے رہے، انہوں نے حکومت لی، اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا وغیرہ وغیرہ اور اس کے باعث شکست یقینی ہے ڈھونڈ کر بھی مجھے ان ارسطو نما صحافیوں، تجزیہ کاروں اور سیاسی قائدین کا پنجاب انتخابات سے قبل کا بیان نہیں ملا۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاست پر بات کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ذرا سوچیں جب سالہا سال سے یہ چند لوگ جو خود کو پنجاب کی سیاست پر اتھارٹی سمجھتے ہیں اگر ان 20 حلقوں کے نتائج پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور عوامی موڈ کو جانچ نہیں پائے تو باقی ملک کے مسائل پر ان کے علم کی کیا حالت ہو گی؟

یہ لوگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ خود یہ لوگ یہ کہتے رہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے نئے سپہ سالار کا انتخاب کرتے ہیں تو ن لیگ کی سیاست ختم سمجھیں اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ن لیگ آگے بڑھ کر ملک کو سنبھالیں۔

یہی باتیں تو یہ کرتے رہے باقی ملک میں صحت اور تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟ نوجوانوں کو روزگار کی کیا مشکلات درپیش ہیں؟ جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ ملک میں زراعت کی صورت حال کیا ہے؟ ملک ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے راستے پر کیوں گامزن ہے؟

ان جیسے موضوعات پر سال بھر یہ خاموش رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عوامی نبض سے آگاہ ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ عوام سے اتنے ہی دور ہیں جتنے خود حکمران دور رہتے ہیں۔ تب انتخابی نتائج کا جھٹکا لگنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے تو ان کی حیرت پر حیرت ہو رہی ہے۔

نوٹ: یہ بلاگ لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ