چھ جنوری فسادات: ’ٹرمپ نے حلف کی خلاف ورزی کی‘

ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین بینی تھامسن نےکیپیٹل حملے کے حوالے سے عوامی سماعتوں کے اختتام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے ’لاپرواہی سے لاقانونیت اور بدعنوانی کی راہ ہموار کی کیونکہ وہ 2020 کے امریکی انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

چھ جنوری 2021 کی اس تصویر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے باہر موجود حامیوں سے خطاب کرنے سٹیج پر پہنچے جہاں انہوں نے تقریر کی تھی جس کے بعد ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا(اے ایف پی)

امریکی کیپیٹل ہل پر حملے کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حلف کو توڑنے، تشدد کو روکنے یا اس کی مذمت کرنے سے انکار پر ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرنے اور صدارتی فرائض میں سنگین غفلت برتنے پر سابق صدر کے خلاف احتساب کی سفارش کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین بینی تھامسن نےکیپیٹل حملے کے حوالے سے عوامی سماعتوں کے اختتام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے ’لاپرواہی سے لاقانونیت اور بدعنوانی کی راہ ہموار کی کیونکہ وہ 2020 کے امریکی انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

کوویڈ کے شکار تھامسن نے کمیٹی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان (ٹرمپ) کا اس حملے کے لیے ’احتساب‘ ہونا چاہئے جسے انہوں نے جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔

تھامسن نے کہا: ’سلیکٹ کمیٹی نے ایک ایسے صدر کی کہانی سنائی ہے جس نے الیکشن کو الٹانے کے لیے اپنے اقتدار کے دوران سب کچھ کیا۔ انہوں نے جھوٹ بولا۔ انہوں نے دھونس سے کام لیا اور انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔‘

تھامسن کا مزید کہنا تھا: ’ٹرمپ نے ہمارے جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کی کوشش کی اس لیے اوول آفس تک احتساب ہونا ضروری ہے۔‘

کمیٹی کی نمائندہ ایلین لوریا نے کہا کہ کمیٹی کی سماعتوں کے دوران ’بہت سے ایسے طریقے سامنے آئے ہیں جن کے ذریعے صدر ٹرمپ نے چھ جنوری تک اقتدار کی پرامن منتقلی کو روکنے کی کوشش کی۔‘

لوریا نے کہا: ’اپنے منصوبے کے ہر قدم کے ساتھ انہوں نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی اور وہ اپنے فرض میں کوتاہی برت رہے تھے۔‘

سات ڈیموکریٹس اور دو رپبلکنز پر مشتمل یہ پینل کیپیٹل پر حملے کے حوالے سے اپنی آٹھویں عوامی سماعت کر رہا ہے۔

ان تمام قانون سازوں نے پرتشدد بغاوت کے بعد ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ووٹ دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون ساز اس دن ٹرمپ کے ان اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں جس کا آغاز انہوں نے وائٹ ہاؤس کے قریب اپنے حامیوں سے ایک شعلہ بیان تقریر کے ساتھ کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نومبر 2020 کے انتخابات چوری ہو گئے تھے۔

بعد میں انہوں نے کیپیٹل پر دھاوا بولنے والے بلوائیوں کو ’بہت خاص‘ قرار دیا تھا۔

کمیٹی کے ریپبلکن رکن ایڈم کنزنگر نے ٹوئٹر پر وائٹ ہاؤس کے متعدد معاونین کی گواہی کے اقتباسات جاری کیے، جن کا کہنا تھا کہ صدر نے ایک ٹیلی ویژن پر حملے کو دیکھنے میں تقریباً تین گھنٹے گزار دیے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے چیف کونسلر پیٹ سیپولون نے کمیٹی کو بتایا کہ صدر کے مشیر ٹرمپ پر زور دے رہے تھے کہ وہ ایک بیان جاری کریں جس میں لوگوں کو کیپیٹل چھوڑنے کا کہا جائے۔

پینل نے ٹرمپ کے متعدد مشیروں اور معاونین کو بھی طلب کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا ان کا ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی فتح کی تصدیق کو روکنے کے لیے کوشش کی منصوبہ بندی کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے میں ان کا کوئی کردار تھا یا نہیں۔

پرائم ٹائم سماعت اس سلسلے کی آخری سماعت ہے۔ کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ ستمبر میں اس حوالے سے مزید سماعت ہوگی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سابق معاونین نے تحقیقاتی پینل کو بتایا کہ چھ جنوری کو کیپیٹل کے محاصرے کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے جو بائیڈن کی فتح کی تصدیق کو روکنے کے اپنے منصوبے کی حمایت سے انکار کی مذمت میں ٹویٹ کی جس نے ’جلتی پر تیل ڈالنا‘ کا کام کیا۔

ٹرمپ کے نائب قومی سلامتی کے مشیر میٹ پوٹنگر نے گواہی دی کہ ٹرمپ کی جانب سے اپنے ہی نائب صدر کی مذمت میں کی جانے والی ٹویٹ کے بعد کیپیٹل پر حملہ آور ٹرمپ کے حامی ‘مائیک پینس کو پھانسی دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

قبل ازیں مزید گواہان نے کمیٹی کو بتایا کہ ’شکست سے مشتعل ٹرمپ نے اس وقت کیپیٹل پر چڑھائی کا مطالبہ کیا جب ان کے حامیوں نے عمارت پر دھاوا بول دیا تھا وہ اس خطرناک حملے سے بخوبی واقف تھے لیکن پھر وائٹ ہاؤس واپس آئے اور اپنے خاندان اور قریبی مشیر کی اپیلوں کے باوجود تشدد کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

دریں اثنا سیکرٹ سروس کی ریڈیو ٹرانسمیشنز کی ریکارڈنگ سے انکشاف ہوا کہ ایجنٹ اپنے اہل خانہ کو الوداعی پیغامات بھیج رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ