نئے نیب چیئرمین آفتاب سلطان کیا تحریک انصاف کو قابل قبول ہوں گے؟

صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے ٹھیک ایک ماہ بعد وفاقی کابینہ نےآفتاب سلطان کو چیئرمین نیب تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔

فورتھ کامن کے آفتاب سلطان نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا بیشتر حصہ محکمہ پولیس میں گزارا ہے (تصویر: پنجاب پولیس)

پاکستان میں وفاقی کابینہ نے سابق ڈی جی انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعیناتی کی منظوری دے دی وہ تحقیقات کی صلاحیت تو رکھتے ہوئے بظاہر اس عہدے کے لیے مناسب تھے لیکن کیا وہ تحریک انصاف کو قابل قبول ہوں گے؟

مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ تعیناتی کے لیے کئی اور نام بھی سامنے آئے جن میں سے ایک آفتاب سلطان کا بھی تھا جس پر مسلم لیگ ن متفق ہوئی۔

22 جون کو صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی سابق جسٹس (ر) مقبول باقر کا نام بھی چیئرمین نیب کے سربراہ کے طور پر گردش کرنے لگا تھا۔

آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے ٹھیک ایک ماہ بعد وفاقی کابینہ نے آفتاب سلطان کی تعیناتی کی منظوری دی۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آفتاب سلطان کی ساکھ کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ نیب کے نئے چیئرمین ملک میں بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے نیب کو غیرجانبدار بنائیں گے۔

تحریک انصاف 

نئے نیب چیئرمین اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے ہیں۔ ستمبر 2017 میں تحریک انصاف نے ایک بیان میں اس وقت کے ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو ’ریاست کی بجائے شریفوں کا وفادار‘ قرار دیا تھا اور یہ الزام عائدٰ کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات‘ کی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان نے کہا کہ وہ شریف خاندان کے ملازم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی بی کے سربراہ پاکستان کے ملازم ہیں نہ کہ شریف خاندان کے جو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے لندن گئے۔

جواب میں ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے آفتاب سلطان نے کسی غیرقانونی دورے سے انکار کیا تھا۔

تحریک انصاف کا اس تعیناتی پر اب تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس جماعت کے قریب سمجھے جانے والے صحافی سمیع ابراہیم نے ایک ٹویٹ میں یاد دلایا کہ آفتاب سلطان بھی ایک مقدمے میں ملزم ہیں۔

اس سے قبل 2014 میں بھی تحریک انصاف نے آفتاب سلطان پر صحافیوں میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایسی صورت حال میں تجزیہ کاروں کے مطابق وہ شاید تحریک انصاف کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔

آفتاب سلطان کون ہیں؟

صوبہ پنجاب کے صعنتی شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آفتاب سلطان ماضی میں کئی اہم سرکاری عہدوں پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی۔ انہوں نے 1977 میں مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں انہیں پولیس سروس ملی۔

فورتھ کامن کے آفتاب سلطان نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا بیشتر حصہ محکمہ پولیس میں بطور سول سرونٹ گزارا اور گریڈ 22 تک پہنچے۔

انہیں 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو تعینات کیا گیا۔ یہ پہلا ایسا عہدہ تھا جس کے بعد ان کا زیادہ تذکرہ کیا جانے لگا۔

آفتاب سلطان 2013 کے عام انتخابات میں انسپکٹر جنرل پنجاب بھی رہے۔

انہوں نے پولیس میں آغاز 1977ءمیں بطور اے ایس پی کیا تھا۔ انہیں پی پی پی حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انٹیلی جنس بیورو کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا تھا اور شاہد خاقان عباسی کی ن لیگ حکومت میں بھی اس عہدے پر پانچ سال تک فائز رہے۔

آفتاب سلطان کے والد اور ساس دو دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ آفتاب سلطان آئی جی پنجاب اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔

صلاحیت؟

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کے سربراہ کے عہدے کے لیے ایسے پیشہ روانہ دیانت دار شخص کی ضرورت ہے جس کی ایمانداری اور لگن پر کوئی سوالیہ نشان نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق چئیرمین جاوید اقبال سے متعلق کئی متنازع واقعے کے بعد اب اخلاقیات بھی بہتر ہونا ضروری ہیں۔

ان کے بقول: ’آفتاب سلطان بھی ان خصوصیات سمیت اس عہدے کے لیے قانون کی طرف سے دیے گئے معیار پر پورا اترتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ 2009 اور 2010 میں آفتاب سلطان نے پنجاب بینک سکینڈل کی تحقیقات کا حکم دیا اور پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ دی۔ انہوں نے چونکہ تفتیش کار اور انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر کام کیا ہے لہذا نیب کو اس طرح کے تجربہ اور سکل سیٹ کی بہت زیادہ ضرورت درکار ہے۔

عمران شفیق کا کہنا تھا: ’یہ خوش آئند بات ہے کہ اس تعیناتی پر پارلیمان میں، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سب کا اتفاق رائے ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکے گا۔‘ تاہم موجودہ قائد حزب اختلاف کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں۔

نیب قوانین میں ترامیم کے بعد چیئرمین کی مدت ملازمت میں، جو کے تین سال ہے، توسیع نہیں کی جا سکے گی جبکہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سابق چیئرمین نیب کو دو بار توسیع دی۔

آفتاب سلطان قمر زمان چوہدری کے بعد پہلے بیوروکریٹ ہوں گے جو چیئرمین نیب کے سربراہ کے طور پر تعینات ہوں گے۔

انہوں نے کہا قمر زمان چوہدری اور جاوید اقبال کے ادوار میں کام دیکھا ہے اور اس لیے ’بیوروکریٹ چونکہ انتظامی اور محکمانہ طریقہ کار کے تجربہ کے حامل بھی ہوتے ہیں تو ایسے عہدے کے لیے زیادہ موثر رہتے ہیں، اور یہ ضابطہ کار کی غلطیوں کے کیسز کو بھی سمجھتے ہیں۔ جاوید اقبال کے دور میں فیصلہ سازی کے معاملے کو بھی کرپشن کا کیس سمجھا گیا، بیوروکریٹس ان معاملات کو بھی سمجھتے ہیں۔‘

’تعیناتی میرٹ کے مطابق نہیں‘

ایک سینیئر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ آفتاب سلطان ایک ایماندار شخص ہیں لیکن ماضی میں وہ کچھ عرصے کے لیے انسپیکٹر جنرل رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بنے۔

پولیس افسر کے مطابق: ’کئی سینیئر پولیس افسران کو ان کے ریٹائرڈ پولیس افسر ہوتے ہوئے کیڈر(cadre) پوسٹ پر بطور ڈی جی آئی بی کام کرنے سے مسئلہ ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے شخص کو آئی بی کے اس عہدے پر لگایا جاتا ہے جو پولرائزڈ ہو اور جو حکمران حکومت کے قریب ہوتا ہے۔ ’ماضی میں بھی حکومتی رہنماؤں کے بلو آئیڈ بوائز سعید مہدی، فواد حسن فواد اور موجودہ پرسنل سیکرٹری توقیر شاہ کو اہم عہدوں پر مقرر کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں نظام یہ ہے کہ حکمرانوں کے جاننے والوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تاہم آفتاب سلطان ایک بہتر شخص ہیں جو اس عہدے پر آنے کے بعد’وچ ہنٹنگ نہیں کریں‘ گے اور غلط کیسز نہیں بنائیں گے لیکن ’ان کی تعیناتی میرٹ پر نہیں۔‘

سابق ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان شریف خاندان کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں ان پر تحریک انصاف کی جانب سے ماضی میں’شریفوں کے وفادار‘ جیسے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ نواز شریف سے آفتاب سلطان کی ملاقات کے بعد ان پر زیادہ تنقید ہوئی۔

2014 کا دھرنا

2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈی چوک پر دھرنے کے دوران آفتاب سلطان آئی بی کے سربراہ تھے اور ان کا سب سے زیادہ چرچہ تب رہا جب نواز شریف کی کابینہ میں شامل مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ خان نے ایک انٹرویو میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنے کے لیے اکسانے کا الزام لگایا تھا۔

اس انٹرویو کے بعد مشاہد اللہ خان کو اس وقت دی گئی وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا۔

صحافی اعزاز سید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آفتاب سلطان نے 2014 کا پی ٹی آئی کا دھرنا ناکام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تب یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ اور تاجروں کے درمیان فون کالز ٹیپ کی گئی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ ظہیر الاسلام دھرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ریکارڈنگ ٹیپس بعد ازاں نواز شریف کو بھی دی گئیں تھیں۔‘

اعزاز نے کہا: ’دھرنا ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران نے اپنی تقریر میں ان کا نام لیتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ 2014 کے دھرنے میں ظہیر الاسلام کی جانب سے کی جانے والی انجینیئرنگ کا انکشاف کرنے میں آفتاب سلطان نے اچھا کردار ادا کیا۔ ’ان کا کام حکومت کو بتانا تھا کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیز حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتی ہیں۔‘

اعزاز سید کہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف آفتاب سلطان کو اپنی کابینہ میں معاون خصوصی مقرر کرنا چاہتے تھے لیکن رابطہ کرنے پر انہوں نے عہدہ لینے سے انکار کر دیا۔

ان کے بقول جب انہیں چیئرمین نیب بننے کا کہا گیا تو انہوں نے ابتدائی طور پر انکار کر دیا تھا لیکن چند اہم شخصیات کے کہنے پر یہ عہدہ قبول کر لیا۔

مشرف کا ریفرنڈم: ’ووٹ ڈالنے کا نہیں کہوں گا‘

اعزاز بتاتے ہیں کہ 2002 میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کی جانب سے کروایا جانے والے ریفرنڈم کے وقت آفتاب سلطان پنجاب کے شہر سرگودھا میں بطور ڈی آئی جی تعینات تھے جہاں انہیں ’زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈلوانے‘ کی ہدایات تھیں۔

اعزاز کے مطابق انہوں نے ’ہدایت کو نہ مانتے ہوئے کسی کو نہ ووٹ ڈالنے کا کہوں گا اور نہ ہی جانے کا کہوں گا‘ کہا تھا۔

انہوں نے مزید کہا: ’سرگودھا ملک کی ان چند جگہوں میں سے ایک تھا جہاں سب سے کم ووٹ ڈالے گئے جہاں پرویز مشرف کو نہ ہونے کے برابر ووٹ ملے۔ جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان