کیا پارلیمان سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر سکتی ہے؟

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کی تجویز دیتے ہوئے کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا جس کے بعد اس مقصد کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

اسلام آباد میں چھ اپریل 2022 کو سپریم کورٹ کا ایک منظر (اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کی جانب سے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے بعد سے ملک میں عدالتی اصلاحات اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کی بحث جاری ہے۔

یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ٹوئٹر پر آئین کے آرٹیکل 191 کا حوالہ دیتے ہوئے اراکین پارلیمان اور پی ڈی ایم کو سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ ’فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘ حکمراں اتحاد پی ڈی ایم اس میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ ٹویٹ سپریم کورٹ کا فیصلہ سنائے جانے سے تقریباً دو گھنٹے قبل کی، جسے بعد میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ری ٹویٹ بھی کیا۔

اس کے بعد سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے، کیسز فکس کرنے اور بینچ کی تشکیل سے متعلق کئی موضوعات پر بحث جاری ہے۔

قومی اسمبلی کے بدھ کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جوڈیشل اصلاحات کی تجویز دیتے ہوئے عدالتی اصلاحات کے لیے کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا: ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں دو آئین ہوں۔ لاڈلے کے لیے ایک اور ہمارے لیے دوسرا آئین۔ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرنا ہے نہ کہ نیا آئین بنانا ہے۔‘

بلاول بھٹو نے مزید کہا: پارلیمان اپنا کردار ادا کرے، اگر پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی تو اس پارلیمان کو تالا لگا دیں، ملک میں دو آئین نہیں چل سکتے۔‘

اس کے بعد جوڈیشل اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ قوانین کی منظوری اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔ آئین، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے، ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

قرارداد کے مطابق آرٹیکل 175 اے کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کی توثیق بھی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ پارلیمان عوامی امنگوں کی نمائندہ ہے اور کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کی اجازت نہیں دے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے قانونی ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ مطالبات کیوں سامنے آ رہے ہیں۔

قانونی ماہر صلاح الدین، جن کا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تقریباً 20 سال کا وکالت کا تجربہ ہے، کہتے ہیں کہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سپریم کورٹ کے قوانین، بشمول چیف جسٹس کی مرضی سے بینچ کی تشکیل، سے متعلق بات کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بینچ تشکیل کرنے کا اختیار پارلیمانی ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کی بجائے سینیئر ججوں کی مشترکہ کمیٹی یا فل کورٹ کی جانب سے چنے جانے کا ایک طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے تاکہ بینچ کی تشکیل کسی ایک فرد کی صوابدید نہ رہے۔

اصلاحات پر مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کیسز کو فکس کرنے کا اختیار بھی چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے جس وجہ سے ’کچھ کیسز کو رات کے وقت بھی سن لیا جاتا ہے‘ کا الزام لگایا جاتا ہے اور ’سالہا سال سے التوا میں پڑے ہوئے کیسز کو سنا نہیں جاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس تضاد کے لیے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس لینے کے طریقہ کار کی وضاحت بھی کی جا سکتی ہے اور ’یہ وہ چیزیں ہیں جن میں قانون سازی ممکن ہے۔‘

صلاح الدین کا کہنا تھا کہ پچھلے سال ججوں کی تقرری سے متعلق آل پاکستان لائرز کانفرنسز ہوئیں جن میں بتائی گئیں ان تین اصلاحات کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی نامزدگی کے معیار کو شفاف بنانے کے حوالے سے مطالبات کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ صوابدیدی اختیارات محدود نہیں ہوتے تب تک عدلیہ پر ہم خیال افراد کو فروغ دینے کا الزام لگتا رہے گا۔

ججز کو ججز ہی تعینات کرتے ہیں؟

لاہور ہائی کورٹ کا حصہ رہنے والے سابق جسٹس شبر رضا رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے پاس آئین میں ترمیم کا اختیار ہے، پارلیمان سپریم کورٹ سے بینچز تشکیل دینے کے اختیار سمیت دیگر اختیارات واپس لینے یا کم کرنا چاہے تو آرٹیکل 191 میں ترمیم کرسکتی ہے۔

ان کے مطابق یہ آرٹیکل سپریم کورٹ کے روزمرہ کے کام سے متعلق ہے، اور اگر پارلیمان سپریم کورٹ کی تقرریوں کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے تو آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے موجودہ اختیارات اور قوائد کی اصل ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے۔ اس بات کا اعتراف 2020 میں بلاول بھٹو نے ’19ویں ترمیم ہم پر ٹھونسی گئی تھی‘ کا بیان دیتے ہوئے کیا تھا۔

سابق جسٹس کے مطابق 18ویں ترمیم سے متعلق کمیٹی، جس کے سربراہ رضا ربانی تھے، نے سپریم کورٹ کو اختیارات دیے، اور 18ویں ترمیم میں تسلی نہ ہوئی تو اعلیٰ عدالت نے رضا ربانی کو بلا کر 19ویں ترمیم کے ذریعے تسلی کروا لی۔

انہوں نے کہا: ’بلاول بھٹو، رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر سے پوچھا جائے کہ 19ویں ترمیم ان پر کس نے ٹھونسی؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ماضی میں جب ایک پارلیمانی پارٹی کا رہنما اتنی بےبسی کا اظہار کرے تو سپریم کورٹ یا باقی اداروں نے مداخلت کرنی ہی ہے۔‘

شبر رضا رضوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے تناسب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کے نو میں سے چھ ارکان جج ہوں گے تو ججز کی تعیناتی شفاف طریقے سے کیسے کی جا سکتی ہے؟

سپریم جوڈیشل کونسل کے نو ارکان میں سے چھ میں چیف جسٹس آف پاکستان، چار سینیئر سپریم کورٹ کے جج اور سپریم کورٹ کے ایک سابق جج شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اس کونسل میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور پاکستان بار کونسل کے ایک رکن شامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب چھ اور تین کا تناسب ہو تو ججز کی تعیناتی میں شفافیت ممکن نہیں، اور کئی سالوں سے جج اور بار کونسلز اس تناسب کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بدھ کو ہی وفاقی حکومت سے کیسز کے تعین اور بینچز کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے صوابدیدی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل سالار خان نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ پارلیمان قانون سازی اور قانونی اصلاحات کرتے ہوئے اختیارات میں تبدیلی کر سکتی ہے جس میں کیسز فکس کرنا، بینچ تشکیل دینا اور ججز کی تعیناتی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا: ’بہت وقت سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ سارے کیسز میں ایک ہی طرح کے افراد کیسز سن رہے ہیں اور بینچ تشکیل دینے کا حق صرف ایک فرد کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں بینچ کی تشکیل انسان نہیں کمپیوٹر کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی عدلیہ کے پاس اس سے متعلق تجاویز بھی دی جاتی رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان