نیب قوانین کیس: ’پارلیمان آئین میں ترامیم کا اختیار رکھتی ہے‘

نیب قانون میں ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئین پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے اور پارلیمان جب چاہے مکمل آئین میں تبدیلی کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا منظر (فائل فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں حالیہ ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے آئین میں کئی ترامیم اس کے بنیادی ڈھانچے کے برعکس ہوئی ہیں، تاہم پارلیمان کو آئین میں مکمل تبدیلی کا بھی حق حاصل ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب قوانین میں حالیہ ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعتچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جمعے کو ہوئی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل تھے۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے ایک مقام پر کہا کہ ’آئین میں کی جانے والی ترمیم اس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نہیں ہو سکتی۔‘

جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’آئین پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے اور پارلیمان جب چاہے مکمل آئین میں تبدیلی کر سکتی ہے۔‘

وکیل خواجہ حارث نے اس پر دلیل پیش کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر پارلیمان سزائے موت ختم کر دے تو کیا وہ چیلنج نہیں ہو سکے گی؟

جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان سزائے موت ختم کر دے تو سپریم کورٹ اسے کیسے بحال کر سکتی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ترامیم کیس میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی آئین کے تحت بنیادی حق ہے اور اس حق کو آئینی ترمیم کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ سزائے موت ختم ہونے کی صورت میں پہلے وفاقی شریعت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔

ایک موقعے پر جسٹس اعجازالاحسن نے خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ ’کیا وہ چاہتے ہیں کہ عدالت پارلیمان کو قانون میں بہتری کا کہے۔‘

اس پر پاکستان تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ’جو ترامیم آئین سے متصادم ہیں صرف انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ دلیل قابل قبول ہے کہ کوئی قانون پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہونے پر کالعدم کیا جائے؟‘

انہوں نے کہا کہ اگر درخواست گزار اسلامی دفعات پر انحصار کر رہے ہیں تو انہیں نیب قانون میں ترامیم کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے۔  

خواجہ حارچ نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے موکل جن اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین پاکستان میں درج ہیں اور اسی لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

ایک موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ’پاکستانی آئین میں درج بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں، لیکن آئین کا آرٹیکل 4 معطل نہیں کیا جا سکتا، جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، تاہم اس پر کبھی تفصیل سے بحث نہیں ہوئی۔‘

اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ گذشتہ رات سے سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پڑھ رہے ہیں۔ ’اپنی معروضات تفصیل سے پیش کریں کہ ترامیم آئین سے کیسے متصادم ہیں۔‘

انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث کو پاکستانی عوام کے ان بنیادی حقوق کی نشاندہی کرنے کو کہا جو نیب قوانین میں ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ان ترامیم کے متعلق بھی دریافت کیا جن سے نیب قانون اور مقدمات متاثر ہو رہے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں ترامیم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ہی درخواست زیر سماعت ہے۔

انہوں نے درخواست گزار کے وکلا سے دریافت کیا کہ ’کیا مناسب نہیں ہوگا کہ پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے؟‘

اس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب قانون اور اس میں ترامیم کا اطلاق ایک ہائی کورٹ پر نہیں پورے بلکہ ملک پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کے بعد عوامی عہدیدار احتساب سے بالاتر ہو گئے ہیں۔ ’شاید ملک کی دوسری ہائی کورٹس میں بھی ان ترامیم کے خلاف درخواستیں دائر ہو جائیں گی۔‘

وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ’احتساب کے بغیر گورننس اور جمہوریت نہیں چل سکتے۔‘

اس پر چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، جبکہ بے نامی دار ایشو بھی وضاحت کا تقاضا کرتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کی درخواست میں ہائی کورٹ بنیادی حقوق سے آگے نہیں جا سکتی۔ ’بہتر رہے گا کہ معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزڈم پہلے آجائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل سے دریافت کیا کہ اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو ان کی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی؟

اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ’اسلام اور آئین پاکستان دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آئین کی بنیادی اجزا میں شامل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ ’کیا حکومت کی جانب سے ختم کیا گیا نیب قانون عدالت بحال کر سکتی ہے؟‘

جبکہ چیف جسٹس نے اس موقع پر خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں، یعنی اگر احتساب ختم ہوجائے۔ چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن صرف غیر قانونی کام کرنا اور اس کا کسی کو فائدہ پہنچانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے۔

چیف جسٹس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اس کی مخالفت کرے تو وہ قومی اثاثے کی مخالفت ہوگی۔

انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) مظہر عالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈیم کی ضرورت ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ احتساب گورننس اور حکومت چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا کام درخواست گزار کو پٹیشن سخت بنانے کا کہنا نہیں، بلکہ ان کا کام کام عدالت کو بتانا ہے کہ کون سی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر نیب قانون کی کوئی ترمیم مخصوص ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے تو اس کی نشاندہی ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر ترمیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ نظر آرہا ہے۔

انہوں نے ایک دوسرے موقعے پر وکیل خواجہ حارث سے دریافت کیا کہ ’کیا وہ چاہتے ہیں کہ نیب کو مفروضے کی بنیاد پر کارروائی کا حق دوبارہ حاصل ہو جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ شواہد کے بغیر کارروائی پر تو کوئی بھی بیوروکریٹ فیصلے نہیں کر رہا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو جن ترامیم پر اعتراض ہے ان کی نشاندہی کی جائے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ان ترامیم سے قومی اور بین الاقوامی معاہدوں کو نظر انداز کیا گیا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا یہ آپ کا تاثر لگ رہا ہے۔‘

اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت اگلے جمعے (پانچ اگست) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان