کیا کے ٹو سر کرنا واقعی آسان ہو چکا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اس سوال کا جواب معلوم کیا جاسکے کہ اب کے ٹو اور دیگر بلند چوٹیاں سر کرنا کیوں آسان ہوگیا ہے کہ ہر سال سینکڑوں کوہ پیما اسے سر کر رہے ہیں۔

کے ٹو کی بلندی 28251 فٹ ہے اور اسے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے شمالی علاقے گلگلت بلتستان میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو پر مہمات کا سلسلہ جاری ہے اور رواں سال اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 150 کے قریب ملکی و غیر ملکی کوہ پیما اسے سر کر چکے ہیں، جن میں خواتین کوہ پیما بھی شامل ہیں۔

ہر سال سردیوں اور گرمیوں میں ’قاتل پہاڑ‘ کہلانے والے کے ٹو کو سر کرنے کے لیے غیر ملکی کوہ پیما پاکستان آکر دو تین مہینے مہمات میں حصہ لیتے ہیں، جن میں بڑی تعداد نیپال سے تعلق رکھنے والے شرپاوٴں کی ہے، جو ہر سال پاکستان آکر کوہ پیماوٴں کو بطور ہائی  آلٹیچیوڈ پورٹر خدمات فراہم کرتے ہیں۔

عمران حیدر تھہیم کے ٹو سمیت قراقرم اور ہمالیہ رینج میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے زائد چوٹیوں کے بارے میں گذشتہ 10 سال سے تحقیق کر رہے ہیں۔

عمران حیدر نے بتایا کہ کے ٹو سر کرنے کی مہمات کو ہم دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں ایک دور 1954 (جب پہلی مرتبہ کے ٹو سر ہوئی) سے لے کر 2009 تک اور دوسرا دور 2010 سے لے کر آج تک کی مہمات کو شامل کرتے ہیں۔

عمران حيدر کے مطابق اگر ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو کے ٹو کو 1954 سے 2009 تک 337 کوہ پیما کو ٹو سر چکے ہیں جبکہ دوسرے دور میں یعنی آج تک کے ٹو کو گذشتہ دس سالوں میں 700 سے زائد کوہ پیماوٴں نے سر کیا ہے۔

عمران حیدر نے بتایا کہ ’یہ اعداد و شمار کوہ پیمائی پر نظر رکھنے والی مشہور ویب سائٹ 8000ers.com سے لیے گئے ہیں جبکہ 2009 کے بعد اعداد و شمار کو میں نے خود ہر سال کی مہمات کا ڈیٹا نکال کر مرتب کیا ہے، جس سے واضح ہوا ہے کہ پہلے دور میں بہت کم کوہ پیماوٴں نے کے ٹو کی چوٹی سر کی ہے جبکہ اس کے بعد دوسرے دور میں مہمات بڑھ گئی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اس سوال کا جواب معلوم کیا جاسکے کہ اب کے ٹو اور دیگر بلند چوٹیاں سر کرنا کیوں آسان ہوگیا ہے کہ ہر سال سینکڑوں کوہ پیما اسے سر کر رہے ہیں۔

آکسیجن کا استعمال

عمران حیدر اس کی چار بڑی وجوہات بتاتے ہیں، جن میں سے ایک کے ٹو کو سپلیمینٹری آکیسجن کے بغیر سر کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے کوہ پیما زیادہ تر بغیر آکسیجن کے بڑی چوٹیاں سر کرتے تھے لیکن اب زیادہ تر کوہ پیما سپلیمینٹری آکسیجن کے ساتھ اسے سر کرتے ہیں۔

عمران نے بتایا: ’2011 تک 60 فیصد کوہ پیما بغیر آکسیجن کے مہمات کرتے تھے جبکہ اس کے بعد تقریباً تین فیصد کوہ پیماؤں نے بغیر آکسیجن کے مہمات میں حصہ لیا ہے۔‘

آکسیجن کے استعمال کے بارے میں عمران نے بتایا کہ آکسیجن کے استعمال کا معیار چار لیٹر فی منٹ سپیڈ ہوتی ہے۔ جب آپ کسی بھی چوٹی کے ڈیٹھ زون (آٹھ ہزار سے اوپر کسی بھی چوٹی کے علاقے کو ڈیٹھ زون کہا جاتا ہے) میں ہوتے ہیں تو آکسیجن کے استعمال سے وہاں انسان کی جسمانی صلاحیت اتنی ہی ہوتی ہے، جتنی تین ہزار میٹر پر ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب آکسیجن سمیت مہم میں حصہ لینا ایسا ہے کہ آپ ہیں تو ڈیٹھ زون میں لیکن آپ کے جسم پر اثرات ایسے ہوں گے جیسے آپ تین ہزار میٹر کی بلندی پر ہیں، تو انسانی فٹنس کا عنصر اس سے ختم ہوگیا۔ ایک کوہ پیما کو سختی جھیلنی ہوتی ہے یعنی آکسیجن کی کمی کا خوف، بلندی پر چڑھنے کا ڈر تو آکسیجن کے استعمال سے یہ ختم ہوگیا، لہذا مہم آسان ہوجاتی ہے۔‘

فکسڈ لائن بچھانا

عمران حیدر کے مطابق فکسڈ لائن ایک اور بڑی وجہ ہے۔ یاد رہے کہ آج کل کسی بھی بلند چوٹی کو سر کرنے سے پہلے ہائی آلٹیچیوڈ پورٹرز مہم سے پہلے وہاں رسیاں بچھاتے ہیں اور انہی رسیوں کو استعمال کر کے کوہ پیما مہم جوئی کرتے ہیں۔

آج کل کوہ پیما جب بھی بلند چوٹی کو سر کرنے کے لیے آتے ہیں تو وہ باقاعدہ طور پر اپنے لیے ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر ہائر کرتا ہے، جو ان کا سامان مہم کے دوران اٹھاتے ہیں جس کا وزن تقریباً 30 کلو ہوتا ہے۔

شرپا جو سامان اٹھاتے ہیں

عمران حیدر کے مطابق تیسری وجہ یہ ہے کہ اب پورٹر کا کلچر عام ہوگیا ہے۔ اس سال کی مہمات کو دیکھیں تو رواں سیزن میں 150 کے قریب کوہ پیماوٴں نے کے ٹو سر کی ہے لیکن اس میں 90 کے قریب ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر ہیں جبکہ باقی کوہ پیما ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’پورٹر بطور مزدور کام کرتا ہے یعنی کوہ پیماوٴں کا سامنا اٹھاتا ہے اور اس کا ان کو معاوضہ ملتا ہے اور یہی ان کی روزی روٹی بھی ہے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہم پر پہنچنے کے بعد یہی پورٹر کوہ پیما کو کندھوں پر اٹھا کر واپس لاتے ہیں۔‘

موسمیاتی تبدیلی

کیا موسمیاتی تبدیلی بھی اس کی وجہ ہے؟ اس کا جواب عمران حیدر نے یوں دیا کہ پاکستان میں تین ہزار میٹر سے زائد کی بلندی ٹری لائن ہے یعنی اتنے بلند پہاڑ پر ہر وقت سبزہ اور درخت وغیرہ ہوتے ہیں۔

عمران کے مطابق اسی طرح پاکستان میں چار ہزار سے زائد میٹر آئس لائن ہے یعنی اس بلندی پر ہر وقت برف پڑی رہتی ہے لیکن اب یوں ہوا ہے کہ ٹری لائن اور آئس لائن میں کمی آئی ہے اور اب آئس لائن تقریباً پانچ ہزار میٹر تک چلی گئی ہے یعنی برف پگھل رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے چار ہزار میٹر بلند پہاڑیوں پر ہر وقت برف رہتی ہے لیکن اب پانچ ہزار میٹر بلند پہاڑی پر رہتی ہے یعنی برف والے علاقے میں ایک ہزار میٹر کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے بلند پہاڑیوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔‘

عمران حیدر کا مزید کہنا تھا کہ ’انسانی جسم جو کم آکسیجن کے ساتھ چل سکتا ہے وہ آٹھ ہزار میٹر تک ہے اور اس سے اوپر انسانی جسم کم آکسیجن کو برداشت نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ آٹھ ہزار سے زائد بلندی کو ڈیٹھ زون کہا جاتا ہے۔‘

عمران حیدر کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’نانگا پربت پر یہ اثرات شروع ہو گئے ہیں اور وہاں برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے جبکہ کے ٹو ابھی اس اثر سے محفوظ ہے لیکن یہ بھی گزرتے وقت کے ساتھ متاثر ہو سکتی ہے۔ کے ٹو تقریباً پورا سال آٹھ ہزار سے اوپر کی بلندی پر برف سے ڈھکی رہتی ہے اور کے ٹو کا سب سے خطرناک حصہ باٹل نیک بھی مسلسل برفانی طوفانوں کی لپیٹ میں رہتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران حیدر کے مطابق: پہلے مہمات کے دوران باٹل نیک کو کراس کرنے میں گھنٹوں لگتے تھے لیکن اب کوہ پیما اس حصے کو جلد سے جلد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’پہلے باٹل نیک کو کراس کرنے میں چھ سے آٹھ گھنٹے لگتے تھے لیکن اب کوہ پیما رات کو مہم پر جاتے ہیں اور صبح تک واپس آجاتے ہیں کیونکہ اوپر سلوپ پر برف ہوتی ہی نہیں۔ ایک خاتون نے تو چھ گھنٹوں میں کے ٹو مہم سر کی ہے۔ وقت کم ہو، آکسیجن کی فراہمی اور شرپا موجود ہوں تو یہ کام جلد ہو جاتا ہے۔‘

عمران حیدر کے مطابق یورپ اور کچھ ممالک میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آکسیجن کے ساتھ اور شرپا کو ہائر کر کے اور فکسڈ لائن پچھا کر مہم پر جانا ماؤنٹین ٹورازم تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کوہ پیمائی بالکل بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ آج کل کوہ پیمائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے پاس پیسے ہوں کیونکہ ایک بوتل آکسیجن خریدنے کے لیے دس ہزار سے ایک ہزار ڈالر درکار ہوتے ہیں جبکہ کسی بھی شرپا کو ہائر کرنا اور یہ پوری مہم مکمل کرنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اب کوہ پیمائی کمر شلائز ہوگئی ہے۔‘

عمران حیدر کے مطابق: ’الپائن سٹائل کوہ پیمائی میں بغیر آکسیجن، بغیر شرپا اور بغیر فکسڈ لائن حصہ لینا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان سب سہولیات کے ساتھ آج کل مہمات میں حصہ لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے رواں سال بڑی تعداد میں کوہ پیما کے ٹو سر کر چکے ہیں۔ اب تو کوہ پیما دو دو شرپا ہائر کرتے ہیں جو ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔‘

جب ماوٴنٹ ایورسٹ پہلی مرتبہ بغیر آکسیجن کے سر کی گئی

2016 میں پہلی مرتبہ دنیا کی پہلی بلند چوٹی کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے وال کوہ پیماوٴں کے نیشنل جیوگرافک پر موجود انٹرویو کے مطابق جب 1978 میں رینہولڈ مینسنر اور پیٹر ہیبلر نے پہلی مرتبہ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن کے سر کیا، تو اس وقت سائنس دان بغیر آکسیجن کے اتنی بلند چوٹی کو سر کرنا نا ممکن سمجھتے تھے۔

اسی رپورٹ کے مطابق 2016 تک ایورسٹ کو چار ہزار کوہ پیماوٴں نے سر کیا ہے لیکن ان میں صرف 200 ایسے تھے جنہوں نے اس چوٹی کو بغیر آکسیجن کے سر کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ 1960 میں ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ بلند چوٹیوں کی مہمات باالخصوص ایورسٹ پر آب و ہوا اتنی مشکل ہوتی ہے کہ وہاں پر بغیر آکسیجن کے جانا برین ڈیمج یا موت کو گلے لگانا ہے۔

ایورسٹ کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے والے پہلے کوہ پیما نے نیشنل جیو گرافک کو بتایا تھا کہ واپسی پر تیز برفانی طوفان کی وجہ سے وہ پھنس گئے تھے اور انہوں نے موت کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے مطابق: ’میں نے مان لیا کہ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن کے سر کرنا نا ممکن ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان