کامن ویلتھ گیمز: پاکستانی ایتھلیٹس نے آخری وقت پر لاج رکھ لی

گیمز کے آغاز پر پاکستان کی کارکردگی کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری تھیں لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے سونے کے دو تمغوں کے ساتھ کل آٹھ میڈلز جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔

برمنگم میں 28  جولائی کو شروع ہونے والے کامن ویلتھ گیمز آٹھ اگست کو اپنے اختتام پر پہنچے، جہاں پاکستانی کھلاڑیوں نے دو سونے، تین چاندی اور تین کانسی کے تمغوں کے ساتھ کل آٹھ میڈلز جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔

گیمز کے آغاز پر پاکستان کی کارکردگی کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ  2018 میں گولڈ کوسٹ میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں ایک سونے کے تمغے سمیت پانچ میڈلز جیتنے والے پاکستانی ایتھلیٹس اپنی پرفارمنس کو دہرا پائیں گے یا نہیں۔

اور جب یہ میچز شروع ہوئے تو ابتدائی چار پانچ دن کھلاڑیوں کی پرفارمنس دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اس بار بہت ہی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا لیکن جیسے ہی ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ کے مقابلے شروع ہوئے تو پاکستان نے ایک کے بعد ایک میڈلز جیتنے شروع کردیے۔

چونکانے والی بات یہ تھی کہ ریسلر انعام بٹ، جنہوں نے 2018 میں گولڈ کوسٹ میں گولڈ میڈل جیتا تھا، وہ فائنل میں ہار گئے اور اپنے میڈل کا دفاع نہیں کرسکے اور سلور میڈل پر اکتفا کرنا پڑا، لیکن وہیں نوح دستگیر بٹ نے گولڈ میڈل جیت کر پاکستانیوں کو خوشخبری دے ڈالی۔

جیولین تھرو کے مقابلوں میں چونکہ گذشتہ گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے بھارت کے نیرج چوپڑا اس مرتبہ گیمز کا حصہ نہیں تھے، لہذا پاکستان کے ارشد ندیم کی جیت کے حوالے سے امیدیں بڑھ گئی تھیں۔

کہا جارہا تھا کہ اگر وہ صرف اپنی اولمپکس کی پرفارمنس کو ہی دہرانے میں کامیاب ہوگئے تو عین ممکن ہے کہ وہ پاکستان کو گولڈ میڈل جتوانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن انہوں نے نہ صرف اپنی اولمپکس کی پرفارمنس کو بہتر کیا بلکہ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں بھی ایک نیا باب رقم کردیا۔

ارشد ندیم کا پہلا تھرو ہی ان کا اب تک کا سب سے بہترین تھرو تھا۔ پھر جب انہوں نے دوسرا تھرو کیا تو وہ اس سے بھی بہتر ہوا اور چوتھے راؤنڈ کے ساتھ وہ 88 میٹر کے ساتھ نمبر ون پر رہے، لیکن گریناڈا کے پیٹر اینڈرسن نے پانچویں تھرو میں ارشد ندیم کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 88.64 کا فاصلہ کور کیا۔

اس موقعے پر ایسا لگا کہ گولڈ میڈل کی امید اب ارشد ندیم کے ہاتھوں سے چلی گئی ہے لیکن جب ارشد کی پانچوی تھرو کی باری آئی تو ایسا لگا کہ جیسے ہم کوئی تھرلر فلم دیکھ رہے ہیں۔ پانچویں تھرو میں ارشد نے پیٹر سے بھی بہتر پرفارم کیا اور 90 میٹر سے زیادہ کا تھرو کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا اور گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کی۔

اس مرتبہ پہلی بار پاکستانی خاتون بینش حیات کو ہاکی کے میچز میں بحیثیت ریفری کام کرنے کا موقع ملا، جو بہت بڑی بات تھی، لیکن ہاکی کے کھیل میں ہمارے لیے کچھ عبرت کا مقام بھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے قومی کھیل میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً آخری میچ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 0-7 سے شکست شرمناک تھی اور یہ پاکستانی حکام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جس کھیل میں ٹیم نے اولمپکس میں آٹھ گولڈ میڈل جیتے، اس میں وہ دوباہ سے اجارہ داری برقرار نہیں رکھ پارہی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن دنوں پاکستان نے یہ گولڈ میڈلز جیتے تھے، ان دنوں یہ کھیل گھانس پر ہوتا تھا لیکن 70 کی دہائی میں جب یہ کھیل آسٹرو ٹرف پر ہونے لگا تو  یہ کھیل تیز ہوگیا اور اب پاکستانی اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔

پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان عمر بھٹہ بھی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہاکی کے کھلاڑیوں کے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔ وہ گھانس پر کھیلتے ہیں اور قومی ٹیم میں سلیکشن ہونے تک انہیں آسٹروٹرف پر کھیلنے کا موقع نہیں ملتا لہذا ضروری یہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں آسٹرو ٹرف قائم کیے جائیں۔

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کارپوریٹ سیکٹر کو آگے بڑھ کر ایک ایک کھیل کو گود لینا چاہیے۔ اگر یہ کریں گے تو پاکستانی ایتھلیٹس مزید بہتر کارکردگی دکھائیں گے، جو اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر میڈل ٹیبل پر 18 ویں نمبر پر ہیں اور یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔

کرکٹ سے لوگوں کو ہٹا کر اب دوسرے کھیلوں پر بھی دھیان دینا چاہیے، تب ہی یہ کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر پاکسان کا نام مزید روشن کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل