گارمنٹس فیکٹری میں ’گینگ ریپ‘ کی خبر ’فیک‘ ہے: کراچی حکام

کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں ایک ملازمہ کے گینگ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہے تاہم اس حوالے سے وزیر محنت سندھ سعید غنی اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

سات فروری 2012 کو لی گئی تصویر میں کراچی کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں سوشل میڈیا پر کراچی کے کورنگی صنعتی زون میں قائم ایک گارمنٹس فیکٹری کی ملازمہ کے ساتھ گینگ ریپ کی خبر گردش کر رہی ہے، جس کے بارے میں تحقیقات کے بعد سندھ حکومت، پولیس اور فیکٹری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس میں ’کوئی صداقت نہیں۔‘

ٹوئٹر پر منگل کی رات آرٹسٹک ملینرز ریپ کیس کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کیا، جس میں صارفین پوسٹ کر رہے تھے کہ کورنگی میں ایک کمپنی کی فیکٹری میں ایک نوجوان ملازمہ کو ڈیوٹی ٹائمنگ کے بعد اوور ٹائم کے بہانے روکا گیا، جس کے بعد 20 سے 22 افراد نے رات بھر انہیں فیکٹری کے احاطے میں ’گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور ساتھ ساتھ تشدد کیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئیں۔‘    

سوشل میڈیا پر صارفین واقعے کی تحقیقات اور فیکٹری انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔

اس ٹرینڈ کے ساتھ برقعہ پہنے ایک خاتون کی ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں وہ ایک گارمنٹس فیکٹری کے چند افسران کی جانب سے انہیں تنگ کرنے کے متعلق بات کر رہی تھیں۔ انہوں نے فیکٹری کا نام نہیں لیا مگر صارفین نےاشارہ دیا کہ وہ آرٹسٹک ملینرز کی بات کر رہی ہیں۔  

آرٹسٹک ملینرز ملک میں جینز کی پتلونیں بنانے والے بڑے کارخانوں میں سے ایک ہے۔ کراچی کے علاقوں کورنگی اور لانڈھی میں آرٹسٹک ملینرز گروپ کے 17 یونٹس ہیں۔

اس حوالے سے جب صوبائی وزیر محنت سعید غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس خبر کو ’جھوٹ‘ پر مبنی قرار دیا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ خبر گذشتہ دو، تین دن سے چل رہی تھی، جس کے بعد ہمارے محمکے نے بھی تحقیق کی ہے۔ کورنگی پولیس نے بھی فیکٹری کا دورہ کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی اور وہاں کے ملازموں سے بھی معلوم کیا۔ مگر اس خبر کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔‘  

انہوں نے مزید کہا: ’تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فیکٹری مالکان کو سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا کر بلیک میل کرنے والے ایک گروہ نے ایسی جھوٹی خبر پھیلائی ہے۔ ہم تحقیق کر رہے ہیں اور اگر یہ ثابت ہو گیا تو اس میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے گا۔‘

صوبائی وزیر کے بقول یہ خبر کئی دنوں سے گردش کر رہی ہے مگر متاثرہ لڑکی کی شناخت تاحال ظاہر نہیں ہوئی ہے۔

یوٹیوب ویڈیو

ایک یوٹیوب ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں سرخ لباس میں خاتون کو فرش پر گرا دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ ان کی ویڈیو بنا رہے ہیں تو چھیپا کے رضاکار خاتون پر کپڑا ڈال رہے ہیں۔

ویڈیو شیئر کرنے والے کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو آرٹسٹک ملینرز فیکٹری کی ملازمہ کی ہے۔ تاہم جب انڈپینڈنٹ اردو نے چھیپا فاؤنڈیشن سے بات کی تو حقیقت کچھ اور معلوم ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھیپا کے ترجمان چوہدری شاہد حسین نے بتایا کہ ’یہ ویڈیو ایک 35 سالہ خاتون کی ہے جن کی لاش یکم ستمبر کو کورنگی نمبر چار کے غوث پاک روڈ کے قریب ایک گراﺅنڈ میں ملی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’علاقہ مکینوں کے مطابق یہ خاتون نشے کی عادی تھیں اور اوور ڈوز کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم ہر واقعے کے بعد ایک چھوٹی سے ویڈیو بنا کر میڈیا کو جاری کرتے ہیں۔ یہ ویڈیو اٹھا کر سوشل میڈیا پر اس فیکٹری سے منسوب کرکے چلا دی گئی جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس خاتون کی لاش تاحال چھیپا سرد خانے میں رکھی ہوئی ہے۔‘  

محکمہ محنت سندھ کی رپورٹ  

انڈپینڈنٹ اردو کو محکمہ محنت سندھ کے جوائنٹ ڈائریکٹر لیبر کراچی ایسٹ سید اطہر علی شاہ کی جانب سے اس واقعے کے متعلق لکھی گئی تفصیلی رپورٹ ملی ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ’ایسی خبر چلنے کے بعد محکمے کی تین رکنی ٹیم نے مکمل تحقیق کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی ہے کہ یہ ایک جھوٹی خبر ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔‘  

ایوان صنعت و تجارت کورنگی کے صدر محمد سلمان اسلم نے بھی ایک خط لکھ کر اس خبر کی مذمت کرنے کے ساتھ کہا ہے کہ یہ ’ایک جھوٹی خبر ہے جو آرٹسٹک ملینرز انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کے لیے پھیلائی گئی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کورنگی کی جانب سے ایوان صنعت و تجارت کورنگی کو لکھا گیا ایک خط بھی موجود ہے جس میں ایس ایس پی نے لکھا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی اور یہ خبر سوشل میڈیا کے ایک صارف نے پھیلائی تھی۔  

آرٹسٹک ملینرز کے چیئرمین یعقوب احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا: ’یہ خبر سوشل میڈیا پر ایک جھوٹا چینل چلانے والے فرد نے پھیلائی ہے، جو سراسر جھوٹ ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ صرف ہمیں بلیک میل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کسی نے آپ سے کوئی رقم مانگی یا کوئی اور مطالبہ کیا، تو ان کا کہنا تھا: ’نہیں ہم سے تاحال کسی نے رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔

’ایسی جھوٹی خبر پھیلانے کے بعد وہ لوگ رقم کا مطالبہ کرنے جارہے تھے کہ یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور حکومت اور پولیس نے تحقیق کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہ ایک جھوٹی خبر ہے۔‘

کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق آرٹسٹک ملینرز برآمدات کرنے والا پاکستان کا چوتھا سے سب بڑا گروپ ہے، جو سالانہ 40 کروڑ امریکی ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان