خواندگی کا عالمی دن: پنجاب میں 55 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے

ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ خواندگی میں اضافے کے لیے حکومتیں، والدین اور معاشرہ کوئی بھی سنجیدہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جس سے شرح خواندگی آبادی کے لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے۔

پنجاب میں سکول نے جانے والے بچوں کی عمریں پانچ سے 15 سال کے درمیان ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

دنیا بھر میں آٹھ ستمبر خواندگی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد تعلیم کو عام کرنے کے بارے میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 55 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔

ان بچوں کی عمریں پانچ سے 15 سال کے درمیان ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

کرونا وبا کے بعد مہنگائی اور سیلاب سے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہونے کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد کم ہے اور ایک لاکھ تک اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں کیونکہ گذشتہ چار سال سے اساتذہ کی بھرتیاں نہیں ہوئی ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور مشکلات کے باوجود بچوں کو سکولوں میں لایا جا رہا ہے۔

ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ خواندگی میں اضافے کے لیے حکومتیں، والدین اور معاشرہ کوئی بھی سنجیدہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جس سے شرح خواندگی آبادی کے لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے۔

حصول تعلیم کی شرح بڑھانے میں کیا روکاوٹیں ہیں؟

محکمہ لٹریسی پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری بشیر احمد گورائیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے حکومت تو اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہے مگر بعض ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مکمل طور پر تعلیم کو عام کرنے میں روکاوٹیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب بھر میں 55 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جن کی عمریں پانچ سے 15 سال تک ہیں۔

’ہم نے اضلاع کی سطح پر مہم بھی چلائی اور والدین کو بھی آگاہ کیا کہ بچوں کو تعلیم دلوائیں مگر ایک تو والدین جو غریب ہیں وہ بچوں کو کمائی پر لگا دیتے ہیں، دوسرا قدرتی آفات اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر حکومت جتنی بھی کوششیں کر لے خواندگی کا تناسب کم نہیں ہوتا البتہ خواندگی میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔‘

بشیر احمد کے بقول والدین خود بھی سنجیدہ نہیں، بچے چار سے پانچ ہیں تو انہیں تعلیم دلوانے کی بجائے انہیں کما کر لانے کی ترغیب دی جاتی ہے جس سے چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

’پہلے کرونا وبا کی وجہ سے تعلیمی نظام متاثر ہوا، سکول بند ہوئے تو والدین نے بچوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا دیا۔ دوسرا مہنگائی بڑھنے سے بھی غریب اور متوسط طبقہ شدید معاشی مشکلات کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے انہیں کام کرانے کی طرف راغب ہوا۔‘

ماہر تعلیم رسول بخش رئیس نے کہتے ہیں کہ حکومتوں، والدین یا معاشرہ میں شرح خواندگی میں اضافہ کے لیے کوئی بھی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

رسول بخش رئیس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں جتنے غریب ہیں ان کے اتنے زیادہ بچے ہیں روزگار ہیں نہیں، نہ آبادی پر کنٹرول ہے نہ یہ شعور ہے کہ بچوں کو تعلیم دلوانا ضروری ہے۔‘

’معاشرہ میں بھی مڈل کلاس سے اپر کلاس تک کو گھروں میں یا دکانوں پر کام کرنے کے لیے بچوں کو ملازم رکھنا ہوتا ہے وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ انہیں سکول میں ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رسول بخش کے بقول حکومتیں بھی تعلیم کو عام نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ لوگ پڑھ لکھ کر حکمرانوں اور ان کے بچوں کو کچھ کیے بغیر لیڈر کیسے مانیں گے؟

’یہی وہ سوچ ہے کہ کسی بھی عوامی نمائندے کی یہ سوچ نہیں کہ اپنے حلقوں میں سڑکوں گلیوں کے ساتھ سکول بھی تعمیر کرائیں۔ پنجاب میں اساتذہ ایک لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہیں بھرتیوں کا کسی کو خیال نہیں۔‘

شرح خواندگی کیسے بڑھائی جاسکتی ہے؟

سیکرٹری خواندگی بشیر احمد کے بقول حکومتی سطح پر خواندگی بڑھانے کے اقدامات آبادی میں تیزی سے اضافے کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔

’ہماری کوشش ہے کہ ضلعی سطح پر سکولوں کو اپ گریڈ رکھیں اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کی تعلیم کو فروغ دیںگ محکمہ لیبر کے ذریعے چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سخت سزائیں ہونی چاہییں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ والدین کو یہ آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم لازمی دلوائیں۔ گلی محلوں میں پرائیویٹ سکولوں کا معیار بہتر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ جو سرکاری سکولوں میں بچوں کو نہ بھیجیں وہ پرائیویٹ تعلیم دلوا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جو خواندگی میں اضافے کی مہم شروع کر رکھی ہے اسے مزید تیز کیا جائے گا تاکہ بہتر نتائج سامنے آئیں۔

’کرونا کے بعد سے بچوں کو سکول لانے کی جتنی شرح بڑھائی گئی وہ آبادی بڑھنے اور قدرتی آفات سے متاثر ہوئی ہے اور 2020 کے مقابلے میں بچوں کے سکولوں سے باہر رہنے کی شرح بڑھی ہے۔‘

رسول بخش رئیس نے کہا کہ حکومتیں 12ویں کلاس تک تعلیم لازمی قرار کیوں نہیں دیتیں؟ اور سبسڈیز روک کر تعلیم پر خرچ کیوں نہیں کرتیں؟ ’کیونکہ ان کی ترجیحات میں شرح خواندگی میں اضافہ نہیں بلکہ ووٹ لینے میں دلچسپی ہوتی ہے۔‘

’دنیا میں بڑے بڑے لوگ سرکاری سکولوں سے ہی پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں، البتہ مڈل کلاس یا اپر کلاس اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم دلوا رہی ہے جس میں حکومتوں کا کوئی کردار نہیں۔‘

رسول بخش کے خیال میں ’تعلیم حاصل کرنے کا شعور دینے کی بجائے دیہی علاقے ہوں یا شہری وسائل رکھنے والے لوگ غریبوں کے بچوں کو خدمت کے لیے رکھنا پسند کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس