بند ذہن اور کھیلوں میں نام کرنے والی خواتین

یہ بات مجھے ایک بار پھر اس لیے یاد آئی کہ گذشتہ دنوں ہی گلگت بلتستان کی حکومت نے بہت عمدہ قدم اٹھاتے ہوئے سپورٹس گالا کروانے کا اعلان کیا۔

حکومت نے مخالفت کے باعث ’سپورٹس گالا‘ کا نام تبدیل کر کے ’مینا بازار‘ رکھ دیا (تصویر: ٹوئٹر/ جمیل نگری)

گلگت بلتستان میں 2019 میں ٹوئر ڈی خنجراب کے لیے جانا ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا ایونٹ تھا جس کا نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں چرچا تھا۔

ملک بھر سے دنیا کی بلند ترین سائیکل ریس کے لیے سائیکلسٹ پہنچے لیکن اس ریس کے بیچ میں ایک اور ریس بھی ہوئی۔

یہ ریس لڑکیوں کی سائیکل ریس تھی۔ انتظامیہ کی جانب سے سائیکلوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ سائیکلیں ایک وین سے اتاری گئیں اور سڑک پر پھینک دی گئیں۔ جو سائیکل جس کے حصے میں آئی اس کی قسمت۔

کوئی سائیکل کسی لڑکی کے لیے بہت چھوٹی تھی تو کوئی بہت بڑی تھی۔ کسی سائیکل کی بریک کام کر رہی تھی اور کسی کی نہیں۔

ایک دو لڑکیوں کو میں نے خود کہا کہ بریک نہیں ہے مت چلاؤ لیکن ان کے جوش کے سامنے مجھے خاموش ہونا پڑا۔ پہاڑی علاقہ، سانپ کی چال کی طرح گھومتی سڑکیں لیکن یہ بچیاں اس بات سے قطع نظر کھیل کے جنون میں یہ خطرہ بھی مول لینے کے لیے تیار تھیں۔

تین سال بعد یہ بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ بات مجھے ایک بار پھر اس لیے یاد آئی کہ گذشتہ دنوں ہی گلگت بلتستان کی حکومت نے بہت عمدہ قدم اٹھاتے ہوئے سپورٹس گالا کروانے کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے بعد گلگت بلتستان کے قدامت پسند افراد نے اس کی مخالفت کی۔ حکومت نے مخالفت کے باعث ’سپورٹس گالا‘ کا نام تبدیل کر کے ’مینا بازار‘ رکھ دیا، اور ایک ٹویٹ کی گئی جس میں کہا گیا ’وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی ہدایت پر ویمن سپورٹس گالا 2022 کو ویمنز مینا بازار میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘

’اس ایونٹ میں ذہنی بیداری کی سرگرمیاں، منصوبوں کی نمائش، دستکاری اور جواہرات کی نمائش اور خواتین کاروباری افراد کی دیگر کامیابیاں شامل ہوں گی۔ مینا بازار میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل پر رہنمائی اور مشاورت شامل ہوگی۔ اس میں خواتین کی مختلف تعلیمی سرگرمیوں کو بھی پیش کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ پروگرام اسلامی اقدار اور مقامی رسم و رواج کے مطابق منعقد کیا جائے گا۔ جیسا کہ پہلے گذشتہ کئی سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔‘

کھیل کسی بھی معاشرے میں سماجی و ثقافتی، جسمانی اور ذہنی نشو نما میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر خواتین کو پاکستانی معاشرے میں کھیلوں سے روکا جائے یا اس کی مخالفت کی جائے تو بنیادی طور پر ہم بطور معاشرہ ان کی نشو نما میں روک رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی سطح پر کی گئی تحقیق میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ کھیلوں میں گلگت بلتستان کی خواتین پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ تحرک ہیں۔

بطور قوم ’بند ذہنوں‘ ہی کو جیتنے دیا جاتا تو گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ملکہ نور پاکستانی فٹ بال ٹیم کی نائب کپتان نہ بن پاتیں۔ ملکہ نور پاکستان آرمی کی فٹ بال ٹیم کی کپتان بھی ہیں۔

انھوں نے اب تک دو سو پروفیشنل میچ کھیلے ہیں جن میں 94 گول کر چکی ہیں۔

لڑکیوں کے کھیلوں کے مخالفین کی مخالفت اگر گلگت بلتستان کی لڑکیاں نہ کرتیں تو ثمینہ بیگ پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما نہ بنتیں جو دنیا کی بلند ترین پہاڑ ایورسٹ کی چوٹی پر پاکستان کا جھنڈا گاڑتیں اور پھر کے ٹو پر۔ اور نہ ہی وہ واحد پاکستانی ہوتیں جنھوں نے سات بر اعظموں میں واقع بلند ترین چوٹیاں سر کیں۔

گلگت بلتستان کی لڑکیاں اس مخالفت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئیں تو تہمینہ نے 2017 میں آسٹریا میں ہونے والی سپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز میں تمغے جیتے۔ 

دو بہنیں عفرہ اور آمنہ ولی سکینگ میں پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی مقابلوں میں نہ کر سکتیں۔ اور نہ ہی ڈیانا بیگ پاکستان کی نمائندگی کرکٹ اور فٹ بال دونوں ہی کھیلوں میں کر سکتیں۔

یہ نام ادھر ختم نہیں ہوتے بلکہ ان بہادر کھیلوں میں نام بنانے والی خواتین کی فہرست بہت طویل ہے جنھوں نے سماج کے ان بند ذہنوں کی مخالفت کے باوجود اپنا نام بنایا اور پیچھے نہیں ہٹیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ