’پاکستان طالبان کی شاخ سے لاحق خطرات نہیں جانچ سکا‘

افغانستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد نے طالبان کی حمایت کا انتہائی غلط اندازہ لگایا، وہ اس گروہ کی پاکستانی شاخوں سے خود کو لاحق خطرات سمجھنے میں ناکام رہا۔‘

افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ایک سال سے زائد عرصے بعد، افغانستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد نے طالبان کی حمایت کا انتہائی غلط اندازہ لگایا، وہ اس گروہ کی پاکستانی شاخوں سے خود کو لاحق خطرات سمجھنے میں ناکام رہے۔‘

2018 سے 2021 تک افغانستان میں قومی سلامتی کے مشیر رہنے والے ڈاکٹر حمد اللہ محب کا یہ انٹرویو کیٹی جینسن نے اپنے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ کے دوران کیا جو عرب نیوز کا پیش کردہ ٹاک شو ہے۔

انہوں نے کہا، ’پاکستانی حکومت نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا کہ ان کے ملک میں طالبان کی کوئی موجودگی ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ طالبان کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ ان کے خاندان تھے، پاکستان میں ان کی میزبانی کی گئی، وہ پاکستان سے متحرک ہوئے۔ اس لیے الزام کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو جاتا ہے۔ اور میرے خیال میں وہ طالبان کی حمایت کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔‘

’اب وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کے خلاف ہم نے انہیں خبردار کیا تھا۔ پاکستانی طالبان اور دیگر گروپوں کو طالبان کی حمایت اب پوری ہو رہی ہے جیسا کہ ہم نے توقع کی تھی۔‘

ان کے نزدیک امریکہ، قطر اور پاکستان سبھی افغان جمہوریہ کے خاتمے اور طالبان کی بحالی کے لیے ذمہ دار ہیں۔

’مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے میں بہت سے الزامات کا بوجھ ابھی نہیں اٹھایا گیا۔ ہم میں سے وہ لوگ جو بڑی ذمہ داریوں کے ساتھ ہیں، ظاہر ہے کہ ان پر اس الزام کا بڑا حصہ ہے۔ امریکہ کا طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنا اور افغان حکومت کو خارج کرنے کا مطلب یہ تھا کہ طالبان اس وقت کسی قسم کی مفاہمت کے موڈ میں نہیں تھے۔ تو مجھے لگتا ہے کہ افغان حکومت گرانے کے الزام کا ایک بڑا حصہ ہم یہیں دیکھ سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں ہر گزرتے دن کے ساتھ، طالبان کے جبر سے افغان عوام کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔‘

ڈاکٹر حمد اللہ محب کا یہ تبصرہ ہمسایہ ملک ایران میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جہاں ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کا قتل خواتین اور نسلی اقلیتوں پر ظلم کے خلاف عوامی غیض و غضب کا ایک محرک بن گیا۔

ڈاکٹر حمد اللہ محب جو پہلے افغان صدر کے ڈپٹی چیف آف سٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے کہا، ’یہاں خطرہ ایران کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، کیونکہ افغان عوام بدل چکے ہیں، حکومتوں میں بہت سی تبدیلیاں دیکھ چکے ہیں، اور جانتے ہیں کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔‘

اگرچہ محب کو توقع نہیں ہے کہ ایران میں ہونے والے مظاہروں کا افغانستان میں ہونے والے واقعات پر براہ راست اثر پڑے گا، لیکن ان کا خیال ہے کہ کابل اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر اسی طرح کے واقعات سامنے آ سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران، طالبان نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ 1996 سے 2001 تک اقتدار کا اپنا سابقہ ​​دور گزار کے اب تبدیل ہو چکے ہیں جس میں اسلام کی ایک انتہائی تشریح کے تحت خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور عوامی زندگی سے روکا گیا، اور آزادی اظہار کو بڑے پیمانے پر دبایا گیا تھا۔

تاہم، اقتدار میں واپسی پر، طالبان حکومت نے ایسی بہت سی پابندیاں دوبارہ عائد کیں جن سے خواتین کے حقوق اور ملک کی ادارہ جاتی ترقی کے حوالے سے دو دہائیوں کی پیشرفت کو دوبارہ روک دیا گیا۔

ڈاکٹر حمد اللہ محب نے کہا ’میرے خیال میں طالبان نے مذاکرات بہت اچھی طرح کیے۔ انہوں نے قطریوں، پاکستانیوں سمیت تمام فریقین کو اپنی بات کا یقین دلایا۔ میرے خیال میں انہوں نے امریکیوں کو استعمال کیا، انہوں نے تمام فریقوں کو مذاکرات کے دوران اپنے حق میں استعمال کیا۔ پھر عالمی سطح پر کوشش کی گئی کہ طالبان کے لیے جگہ پیدا کی جا سکے۔ لہذا، انہوں نے اس جگہ کا استعمال کیا اور میرے خیال میں بہت سے ممالک کو اس سے بے وقوف بنایا گیا۔

’طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، انہوں نے کبھی بھی اپنے وعدے پورے کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ ڈیلیور کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ چاہے اپنی مرضی سے ڈیلیور کرنے کے قابل نہیں، یا وہ ڈیلیور کر نہیں سکتے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا کبھی بھی ان وعدوں کو پورا کرنے کا ارادہ نہیں تھا جو انہوں نے عالمی برادری اور افغانوں سے کیے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا