برطانیہ: ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے آئی ڈا روبوٹ ’سو گئی‘

مصنوعی ذہانت سے لیس آئی ڈا نے ہاؤس آف لارڈز میں منگل کو تقریر کرنے والی پہلی روبوٹ بن کر تاریخ تو رقم کی لیکن سوالات کے دوران ایک موقع پر یہ روبوٹ بظاہر سو بھی گئی۔

ساڑھے تین سال میں بنائی گئی ’آئی ڈا‘ نامی اس روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے مصوری کے ساتھ ساتھ شاعری پر بھی کام کیا ہے (اے ایف پی)

19 ویں صدی کی ریاضی دان ایڈا لو لیس (Ada Lovelace) کے نام پر مصنوعی ذہانت سے لیس ایک روبوٹ کو منگل کو برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں فنون، ڈیزائن، فیشن اور موسیقی کی صنعتوں کے مستقبل کے حوالے سے بلایا گیا جہاں اس روبوٹ نے کمیونیکیشنز اینڈ ڈیجیٹل کمیٹی کے ارکان کے سوالات کے جواب دینے تھے۔

ساڑھے تین سال میں بنائے گئے ’آئی ڈا‘ نامی اس روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے مصوری کے ساتھ ساتھ شاعری پر بھی کام کیا ہے اور اس کی پینٹنگز کی نمائش بھی کی جا چکی ہے، جن میں ملکہ برطانیہ اور برطانوی موسیقار بلی آئلش کی پینٹنگز بھی شامل ہیں۔

آئی ڈا نے ہاؤس آف لارڈز میں منگل کو تقریر کرنے والی پہلی روبوٹ بن کر تاریخ تو رقم کی لیکن سوالات کے دوران ایک موقعے پر یہ روبوٹ ’سو بھی گئی۔‘

کمیٹی میں بیٹھے ممبران نے آئی ڈا سے پہلا سوال یہ کیا کہ ’آپ پینٹنگ کیسے کر لیتی ہیں؟‘ جس کے جواب میں آئی ڈا نے کہا: ’میں اپنی پینٹنگز کو اپنی آنکھوں میں لگے کیمروں، مصنوعی ذہانت کے ایلگورتھم اور اپنے روبوٹک بازو کے ذریعے تیار کرتی ہوں۔‘

آئی ڈا نے مزید کہا: ’شاعری کے لیے غیر جانبدار نیٹ ورکس، کمپیوٹر پروگرامز اور ایلگورتھم  کا استعمال بھی کرتی ہوں۔ اگرچہ میں زندہ نہیں لیکن آرٹ بنا سکتی ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی کے ممبران نے آئی ڈا کو بنانے والے سائنس دان اور آکسفورڈ کے انجینیئر ایڈن میلر سے بھی چند سوالات کیے، جس کے دوران آئی ڈا کی بیٹری بھی ایک وقت پر ختم ہو گئی۔

ایڈن میلر نے اسے ری سٹارٹ کیا اور اسی دوران ایک دلچسپ چیز یہ بھی ہوئی کہ آئی ڈا کی ایک آنکھ ٹیڑھی ہونا شروع ہو گئی، لیکن جب اسے ری سٹارٹ کیا گیا تو دوبارہ ایسا نہیں ہوا۔

ری سٹارٹ کرتے وقت آئی ڈا کو چشمہ پہنایا گیا، جس پر کمیٹی کے ارکان نے سوال کیا کہ اس چشمے کی کیا ضرورت تھی؟ جس کے جواب میں میلر نے کہا کہ ’جب بھی ہم آئی ڈا کو ری سٹارٹ کرتے ہیں تو یہ مزاحیہ چہرے بناتی ہے۔‘

اس تقریب کو دیکھتے وقت یہی سوال بار بار ذہن میں آرہا تھا کہ کیا اب مشین واقعی انسانوں کی جگہ لے لے گی؟ کیوں کہ نہ تو انہیں نیند کی ضرورت ہے اور نہ ہی کھانے کی لیکن پھر دل کو تسلی اس بات پر دی کہ چلو ابھی آئی ڈا بھی تو سوالات کے دوران ’سو‘ ہی گئی تھی تو شاید مصنوعی ذہانت اور ہم میں اتنا فرق نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی