شمالی وزیرستان: ’بے روزگار نوجوان طالبان میں شامل ہو رہے ہیں‘

مقامی قبائلی سردار کے مطابق آپریشن ضربِ عضب کے بعد شمالی وزیرستان میں نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ایک بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔

27 جنوری 2017 کو ایک پاکستان فوج کا اہلکار شمالی وزیرستان میں غلام خان ٹرمینل میں میڈیا اہلکاروں کو بریفنگ دے رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی طالبان کے خلاف ایک کارروائی کے بعد طالبان نے بھی جوابی حملے شروع کر دیے اور حال ہی میں فوجی قافلے پر خودکُش حملہ اور افغانستان کے حدود سے ایک چوکی کو نشانہ بنایا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل سپین وام میں سکیورٹی فورسز نے خُفیہ اطلاع پر کارروائی کی ہے جس میں حافظ گل بہادر گروپ کے چار عسکریت پسند مارے گئے ہیں اور آپریشن کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔

ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے چاروں دہشت گردوں کا تعلق تحصیل سپین وام سے ہے جس میں کوئی غیر مقامی فرد شامل نہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ کے مقامی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد اتوار کی صبح سپین وام میں ایک فوجی قافلے میں شامل ایک گاڑی کو خودکُش حملہ آور نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ سپین سے میرعلی کی طرف جارہی تھی۔

حملے میں چار اہلکار زخمی ہوئے جس میں دو کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے اور ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بنوں منتقل کر دیا گیا ہے۔

دوسرا واقعہ آئی ایس پی آر کے مطابق سپین وام  کے علاقے حسن خیل میں اس وقت پیش آیا جب افغانستان کی حدود سے ایک چوکی پر راکٹوں سے حملہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے میں وقار نامی ایک سپاہی جان سے گیا۔ ان کا تعلق صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور سے بتایا جاتا ہے۔

سپین وام میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ فوجی آپریشن میں ہلاک ہونے والے چاروں عسکریت پسندوں کا تعلق حافظ گُل بہادر گروپ کے مقامی طالبان سے تھا اور سپین وام میں دتہ خیل کے وزیر قبائل کے چار مختلف گاؤں سے بتائے جاتے ہیں جن میں شیر زمان کا تعلق گاؤں سرویک، اکبر زمان کا تعلق سیرڈوگ، محب خان کوٹ کلے اور ذبیح اللہ کا تعلق ناری کلے سے بتایا جاتا ہے۔

سپین وام کے رہائشی محمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فوجی کارروائی میں ہلاک ہونے والے چاروں جوان لڑکے تھے جو حال ہی میں طالبان میں شامل ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا: ’آبادی بڑھ گئی اور وزیرستان کے زیادہ تر نوجوان بے روزگار ہیں۔ محمد خان کے مطابق بیروزگاری کی وجہ سے خود کو مصروف رکھنے کے لیے اکثر لڑکے طالبان گروپوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’افغان سرحد کے قریب آباد قبائل کے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی تو طالبان میں شامل ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یا تو بیروزگاری ہے یا طالبان سے اپنی عزت بچانے کے لیے ان گروپوں کا حصہ بن گئے ہیں۔‘

قبائلی سردار ملک امین نے بتایا کہ ’فوجی آپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان میں نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ایک بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسا وقت تھا کہ لوگوں کا کاروبار چل رہا تھا اور وہ اپنے بچوں کے سکول فیسوں کا خرچہ برداشت کر سکتے تھے مگر ضرب عضب کے بعد کاروبار خراب ہوا تو اس کا اثر براہ راست بچوں کے تعلیمی سلسلے پر پڑ گیا۔     

انہوں نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لیے حکومت نے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دتہ خیل قبیلہ سرحد کے آر پار آباد ہیں ان کے علاقوں میں جو سرکاری سکولز موجود ہیں وہ بھی بند پڑے ہیں۔ اس لیے اس علاقے کے زیادہ تر لڑکے ان پڑھ ہیں اور طالبان میں شامل ہو رہے ہیں۔

مقامی مبصرین کے خیال میں وزیرستان میں جاری غیراعلانیہ فوجی کارروائی سے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں اور نہ ہی امن امان کو برقرار رکھ سکتے ہیں جب تک علاقے کے نوجوانوں کو کسی نہ کسی کام میں مصروف نہ رکھا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان