کیا سود سے پاک بینکاری پاکستان میں ممکن ہے؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کے مطابق: ’مغرب نے کنونشنل بینکنگ پر پانچ سو سال ریسرچ کی ہے جبکہ مسلمانوں نے سود کے بغیر نظام چلانے کے لیے عالمی سطح پر خاطر خواہ کام نہیں کیا ہے۔‘

13 مئی 2019 کو کراچی میں ایک کرنسی ایکسچینج کے دفتر میں ایک شخص نوٹ گن رہا ہے (اے ایف پی)

محمد بخش کی عمر 70 سال ہے۔ وہ معاشیات کے پروفیسر ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں پاکستان سے سود کا نظام ختم ہوتے دیکھیں۔

وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سودی بینکاری کے خاتمے سے متعلق اپیلیں واپس لینے کا فیصلے کے معترف ہیں، تاہم کچھ زیادہ پر امید دکھائی نہیں دیتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں بھی حکمرانوں نے سودی نظام ختم کرنے کے وعدے کیے، لیکن انہیں پورا نہیں کر سکے۔

’قائداعظم نے سود کے بغیر پاکستان کا معاشی نظام تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔ 1973 کا آئین بھی سودی نظام کے خاتمے کا حکم دیتا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔‘

بقول محمد بخش: ’میں سودی نظام ختم کرنے کے اسحاق ڈار کے دعوے پر اس وقت یقین کروں گا جب اس کی واضح پالیسی اور حکمت عملی بھی عوام کے سامنے رکھی جائے۔ بصورت دیگراس اعلان کی حیثیت ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘

اس حوالے سے انٹرنیشل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جزل ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف بینکوں اور اداروں کی جانب سے67 اپیلیں جمع ہیں۔ اگر دو اپیلیں واپس لے بھی لی جائیں تو بقیہ 65 اپیلیں بڑی رکاوٹ رہیں گی۔ آئین کے آرٹیکل 203 ڈی کے مطابق جب تک تمام اپیلوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آ جائے، تب تک وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کالعدم تصور کیا جائے گا۔‘

بقول مشتاق احمد: ’اس کے علاوہ پرائیویٹ منی لینڈنگ لا 1960 کو فوری ختم کیا جائے۔ اس کے تحت ملک میں انفرادی سطح پر آٹھ فیصد کی شرح سے سود کا کاروبار کرنا قانونی طور پر جائز ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اس قانون کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن وفاقی دارالحکومت، صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں یہ قانون اب بھی موجود ہے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلامک بینکنگ کے حوالے سے کافی کام ہو چکا ہے۔ رہنمائی کے لیے مفصل اسلامی قوانین موجود ہیں۔ ملک کا بڑا حصہ کامیابی سے اسلامک بینکنگ کی طرف راغب ہے۔ اگر حکومت چاہے تو پانچ سال میں پورے ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بدلنے سے بھی اس پر فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں اسلامک بینکاری کے نفاذ اور سودی نظام کے خاتمے کے حق میں ہیں۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلامک بینکنگ اور سود سے پاک معیشت دو علیحدہ موضوعات ہیں۔ اسلامی بینکاری ہمارے معاشی نظام کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ موجودہ معاشی چیلنجز میں مکمل اسلامک بینکنگ مشکل ہے۔ اس سے سودی نظام ختم نہیں ہوگا۔ ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس سمیت سینکڑوں پراڈکٹس ہیں، جو سودی نظام کے تحت ہیں۔ مغرب نے کنونشنل بینکنگ پر پانچ سو سال ریسرچ کی ہے جبکہ مسلمانوں نے سود کے بغیر نظام چلانے کے لیے عالمی سطح پر خاطر خواہ کام نہیں کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ناکام دورے سے واپسی پر اسلامک بینکنگ کا شور مچانا شروع کر دیا تھا جو ایک سیاسی چال ہے۔ حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ دس ماہ ہیں اور اسحاق ڈار اسے پانچ سال میں مکمل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں، جو ایک الیکشن سٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘

سودی بینکنگ کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا کیس جیتنے والے جماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جوڈیشل سطح پر دو اپیلیں واپس لینا اہم ہے۔ جب سٹیٹ بینک اپیل واپس لے گا تو اس کے ماتحت کام کرنے والے بینک اور مالی اداروں کی اپیلیں زیادہ موثر نہیں رہیں گی۔ قانونی طور پر رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر حکومت چاہے تو دس ماہ میں بھی مثبت نتائج دے سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلامک بینکنگ، کنونشنل بینکنگ کی نسبت زیادہ منافع بخش ہے۔ دنیا میں بڑے بینکوں میں اسلامی بینکنگ بھی رائج ہے لیکن وہاں اس کا نام ایڈونچر بینکنگ ہے۔ ہانگ کانگ ایچ ایس بی سی بینک کا بڑا حصہ اسلامک بینک پر مشتمل ہے۔ یہ نظام بینکوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں اسلامک بینکنگ سے عالمی اداروں کو مسئلہ نہیں ہو گا بشرطیکہ ان کے قرض بروقت ادا کیے جاتے رہیں اور یہ نظام معاشی طور پر سودی نظام کی نسبت زیادہ مضبوط اور فائدہ مند ہو۔‘

نجی بینک کے سینیئر وائس پریزیڈنٹ بابر علی پیرزادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلامی بینکاری سے کرپشن میں کمی آ سکتی ہے۔ اس نظام کے تحت گھر، گاڑی، فیکٹری یا کسی منصوبے کے لیے قرض دیا جاتا ہے جبکہ کنونشنل بینکنگ میں کیش بطور قرض دیا جاتا ہے۔ جسے سیاسی اشرافیہ معاف کروانے میں مہارت رکھتی ہے جبکہ اسلامک بینکنگ میں یہ ناممکن ہے۔‘

’کنونشنل بینکوں کے کسٹمرز ایگریمنٹس چند دنوں میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ عالمی بینک بھی پاکستان کو کیش کی بجائے پروجیکٹ پر قرض دینے کے حامی ہیں یعنی کہ آئی ایم ایف کو بھی اسلامی بینکاری پراعتراض نہیں ہے۔ پاکستان کے ایک نجی اسلامک بینک میں تین بڑی غیر مسلم کمپنیاں اسلامی بینکاری کے اصولوں کے مطابق قرض لینے کو زیادہ ترجیح دے رہی ہیں۔‘

بابر علی پیرزادہ کے مطابق: ’اس وقت ملک کے مکمل بینکنگ نظام میں اثاثوں اور ڈپازٹس کے اعتبار سے اسلامی بینکوں کا حصہ تقریباً 21 فیصد ہے۔ تقریباً 22 ادارے مکمل طور پر اسلامی بینکاری کے اصولوں پر چل رہے ہیں۔ تقریباً 17 کنونشنل بینکوں کی 1418 اسلامی بینکوں کی برانچیں موجود ہیں۔‘

سٹیک ہولڈرز اور ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر حکومت سودی نظام کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے پانچ سال کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کام آٹھ ماہ میں بھی باآسانی ہو سکتا ہے اور اگر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ارادہ ہے تو یہ منصوبہ پانچ سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت