اکرم نجی کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہے۔ اس کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ تین بچے، ایک بیوی اور دو بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داریاں اس پر ہیں۔
مہنگائی کے باعث تنخواہ پہلے تین ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہے اور آخری ہفتہ ادھار مانگ کر گزارا کرتا ہے۔ اس ماہ ادھار راشن لینے کے لیے دکان پر گیا تو دکاندار نے یہ کہہ کر ادھار دینے سے منع کر دیا کہ پہلے پچھلے چار ماہ کا ادھار ادا کرو۔ مدد کے لیے دوستوں اور رشتے داروں کے پاس گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے کر رہے ہیں۔
وہ مایوس ہو کر گھر لوٹ گیا۔ اسے مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ تین سال پہلے چار ہزار روپے میں گھر کا راشن آ جاتا تھا، جو اب 15 ہزار روپے میں بھی نہیں آ رہا۔
وہ ابھی اسی پریشانی میں مبتلا تھا کہ اس نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 250 پوائنٹس کا اضافہ کر دیا ہے۔
یہ خبر اکرم کے لیے کسی سونامی سے کم نہیں تھی۔ اسے معیشت کا زیادہ علم نہیں ہے لیکن وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ شرح سود بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ پریشانی کے عالم میں اس نے ایک ماہر معاشیات دوست کو فون کرکے شرح سود بڑھنے کی وجوہات اور اس کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’ملک میں آج تک سب سے زیادہ شرح سود اکتوبر 1996 میں 19 فیصد اور سب سے کم مئی 2016 میں 5.75 فیصد تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے مزید کہا کہ ’آج ملک میں شرح سود 12.25 فیصد ہے جو تشویش ناک ہے۔ سٹیٹ بینک کا اجلاس 19 اپریل کو طے تھا لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ہنگامی اجلاس سات اپریل ہی کو بلا لیا گیا۔ ڈالر کی قیمت کو غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے۔ صرف ایک دن میں روپے کی قیمت پانچ فیصد کم ہوئی۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ہفتے میں 72.8 کروڑ ڈالرز کم ہو کر تقریباً 11 ارب 30 کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں۔ بینکوں کے ذخائر ملا لیے جائیں تو تقریباً 17 ارب 40 کروڑ ڈالرز بنتے ہیں۔
’دوسری طرف چھ ماہ قبل زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 27 ارب ڈالرز تک بڑھ گئے تھے، لیکن درآمدات کی کمزور پالیسیوں کے باعث ڈالرز کی مقدار کم ہوئی ہے۔ زیادہ پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ 11 ارب 30 کروڑ ڈالرز میں سے سعودی عرب کے تین ارب ڈالرز اور چین کے تقریباً چار ارب ڈالرز استعمال کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ درآمدات بڑھنے کے علاوہ قرضوں کی ادائیگی اور مائننگ منصوبے سے متعلق آربریٹیشن ایوارڈ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ بنے۔‘
اکرم سوچنے لگا کہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ آیا حکمران نااہل ہیں یا مافیاز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے؟ اور حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا میں اور مجھ جیسے کروڑوں عوام کیوں بھگت رہے ہیں، جنہوں نے غلط فیصلے کیے انہیں احتساب کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے اکرم نے اپنے سابقہ کالج کے معاشیات کے پروفیسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ملکی تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔ جو حکومت کے طے کیے گئے حدف 28 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ ماہانہ درآمدات چھ ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہیں۔ پچھلے ماہ برآمدات پونے تین ارب ڈالرز رہیں، جو فروری کی نسبت آٹھ کروڑ ڈالرز کم ہیں۔ اس صورتِ حال میں 2.8 فیصد کا اضافہ تشویش ناک ہے۔