چمن کراسنگ آٹھ دن بند رہنے کے بعد کھول دی گئی

دونوں ممالک کے درمیان اس کراسنگ کو ایک افغان شہری کی فائرنگ میں پاکستانی اہلکار کی جان جانے کے بعد بند کیا گیا تھا۔

25 اگست 2021 کی اس تصویر میں پاکستان افغانستان بارڈر پر واقع چمن سپن بولدک کراسنگ سے پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ہفتے فائرنگ کے واقعے کے بعد پاکستان افغانستان کے درمیان اس کراسنگ کو آٹھ دن بعد کھول دیا گیا ہے(اے ایف پی)

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع چمن سپن بولدک کراسنگ آٹھ روز بعد کھول دی گئی۔

دونوں ممالک کے درمیان اس کراسنگ کو ایک افغان شہری کی فائرنگ میں پاکستانی اہلکار کی جان جانے کے بعد بند کیا گیا تھا۔

تاہم دونوں جانب سے حکام نے مذاکرات کے بعد گذشتہ روز سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق سرحد کھلنے کے ساتھ ہی دونوں جانب آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری نے کل ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’چمن باب دوستی بارڈر کو تجارتی، پیدل آمدورفت اور ہرقسم کے ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’13 نومبر کو پاک افغان بارڈر پر دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں افغان سرزمین سے داخل ہو کر ایک دہشت گرد نے ایک ایف سی اہلکار کو شہید اور دو کو زخمی کردیا جس کے بعد باب دوستی کو احتجاجاً بند کر دیا گیا تھا۔‘

’جس کے بعد گذشتہ ایک ہفتے سے باب دوستی پر آمدورفت بحال کرنے کے لیے سول ملٹری لیزان کمیٹی کی کئی ملاقاتیں ہوئیں اس کے علاوہ افغان اور پاکستانی حکام کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔‘

ڈی سی عبدالحمید کا کہنا تھا کہ ’افغان حکام نے ان ملاقاتوں کے دوران اس واقعے پر گہرے رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا اور یقین دلایا کے مجرم کو ہر صورت گرفتار کیا جائے گا اورمجرم کو سخت سزا دی جائے گی۔ ان ملاقاتوں میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ آئندہ کسی بھی شرپسند عناصر کو دونوں ملکوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا کو خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔‘

ڈپٹی کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔‘

چمن سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن ذوالقرنین نے بتایا کہ ’پاک افغان سرحد پر واقع چمن کراسنگ کو آج صبح کے وقت مکمل کھول دیا گیا۔  پیدل چلنے والے افراد اور گاڑیوں کا راستہ بھی کھول دیا گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر وائرل بعض ویڈیوز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ سرحدی دروازہ کھلنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد سرحد پار کر رہی ہے۔

 یہ راستہ ایک ہفتہ قبل 13 نومبر کو ایک افغان شخص کی پاکستانی فورسز پر فائرنگ اور ایک اہلکار کے چل بسنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور افغانستان کی اس سرحد کو روزانہ تقریباً 20 سے 25 ہزار سے زیادہ افراد پار کرتے ہیں جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہوتی ہے-

چمن کے ایک شہری محب اللہ جنہوں نے فائرنگ کے اس واقعے سے قبل افغانستان کا سفر کیا تھا اور سرحد بند ہونے کے باعث وہیں پھنس گئے تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں تین روز قبل وہاں سے مازل چیک پوسٹ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا۔‘

محب اللہ نے بتایا کہ ’جب میں وہاں پھنس گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے دروازے سے نکلنے کے لیے ہزاروں کا مجمع لگا ہوا ہے جس کے باعث کئی لوگ گر رہے تھے، کئی افراد لوگوں کے پاؤں تلے آ کر زخمی بھی ہوئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر شناختی کارڈ رکھنے والوں کو سرحد سے گزرنے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن وہ لوگ زیادہ مشکل میں تھے جن کے پاس ایسا کوئی دستاویز موجود نہیں تھی۔‘

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ سرحد پر فائرنگ اس نے کی ہے۔

تاہم اس حوالے سے طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ’بولدک واقعے کا ملزم امارت اسلامیہ سے وابستہ فرد نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ویڈیو جاری کرنے والا شخص بھی کوئی اور ہے۔ ملزم کی تصویر سے اس کی کوئی مشابہت نہیں ملتی۔ ہم ایسے الزامات کو  مسترد کرتے ہیں۔ اعلیٰ سطح پر اس کی تحقیقات جاری ہیں جن کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا