پنجاب میں مقرر کم سے کم 25 ہزار روپے تنخواہ کیا سب کو ملتی ہے؟

پنجاب لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے میں صنعتی یا کمرشل جگہوں پر کام کرنے والے غیر ہنر مند، بالغ ملازمین کی ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی گئی، لیکن کیا یہ تنخواہ سب کو برابر ملتی ہے؟

سات مئی 2008 کی اس تصویر میں لاہور میں خواتین اساتذہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرز کرنے والی نگہت خرم  (فرضی نام) 1997 سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے ایک چھوٹے درجے کے ایک نجی سکول میں چار ہزار روپے تنخواہ پر بطور استاد پڑھایا اور 2021 تک وہ چار مختلف چھوٹے نجی سکولوں میں ملازمت کرتے کرتے 12 ہزار روپے تنخواہ تک پہنچیں۔

نگہت کے شوہر ایک نجی ادارے میں بحیثیت کلرک کام کرتے ہیں اور لگ بھگ تیس ہزار روپے ماہانہ کما لیتے ہیں، لیکن دونوں کی تنخواہ ملا کر بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، اس لیے نگہت ٹیوشنز بھی پڑھاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چند ہفتے قبل انہیں ایک معروف نجی سکول سسٹم کی فرنچائز میں بطور استاد اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لیے مامور کیا گیا ہے۔

بقول نگہت ان کی ابتدائی تنخواہ 18 ہزار روپے اس وعدے کے ساتھ مقرر کی گئی کہ تین ماہ کے بعد ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تنخواہ کو بڑھا کر 25 سے 30 ہزار روپے کے درمیان کر دیا جائے گا۔ 

ہم نے دیگر شعبوں جیسے ہوٹلوں میں کام کرنے والے ویٹرز، ورکشاپوں پر کام کرنے والے ملازمین، یہاں تک کہ بڑے سٹورز پر کام کرنے والے ملازمین سے بھی ان کی تنخواہوں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تنخواہ 10 سے 18 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ ہفتے میں ایک چھٹی اور کبھی کبھار ڈیوٹی کے اوقات دس سے 12 گھنٹے بھی ہوجاتے ہیں۔

پنجاب لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ نے جون 2022 میں کم از کم تنخواہ ایکٹ 2019 کے سیکشن چھ کے تحت ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے مطابق صوبے میں صنعتی یا کمرشل جگہوں پر کام کرنے والے غیر ہنر مند، بالغ ملازمین کی روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کی اجرت 961 روپے 53 پیسے مقرر کی گئی جبکہ ان کی ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی گئی، جس میں 26 دن کام کرنے کے ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اگر آجر ملازمین کو ٹرانسپورٹ اور رہائش مہیا کرتا ہے تو وہ بالترتیب 66 اور 310 روپے ماہانہ ٹرانسپورٹ اور رہائش کی مد میں ان کی تنخواہ سے کٹوتی کرے گا۔

مغربی پاکستان کے کم از کم اجرت کے قوانین 1962 کے رول 15 کے مطابق ایک خاتون ملازم کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہوگی جتنی اس کے مرد ساتھی کی وہی کام کرنے کی ہوگی۔ 

حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق 102 صنعتوں اور دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والے ہنر مند، درمیانے ہنر مند اور زیادہ ہنر مند ملازمین کی تنخواہ بھی مقرر کردہ اجرت سے کم نہیں ہوگی جبکہ ان کی رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت میں بھی وہی کٹوتی ہو گی جو غیر ہنر مند افراد کے لیے طے کی گئی ہے۔

تاہم آجر کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ وہ کسی بھی درجے کے ہنر مند افراد کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ مقرر کر سکتا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق خواتین کے لیے بھی یہی قانون لاگو ہوگا۔ 

نوٹیفکیشن کے مطابق ہنرمند افراد کی 102 مرتب شدہ صنعتوں میں مختلف درجوں کے ملازمین کی کم از کم تنخواہ 27 ہزار 164 روپے سے 30 ہزار 89 روپے تک مقرر کی گئی۔ اس کے علاوہ انہیں اوور ٹائم کی اجرت علیحدہ ملے گی۔   

اسی فہرست میں ہر قسم کے تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔ فہرست کےمطابق تعلیم کی صنعت میں انتظامی اور سپروائزر گروپ کی تنخواہ آجر اور ملازم کی باہمی مشاورت سے طے کی جائے گی، البتہ اس لسٹ کے مطابق زیادہ ہنر مند افراد کی بی کیٹیگری میں شامل سینیئر اساتذہ، ہائی سکول اساتذہ اور اسسٹنٹ ٹیچرز کی 26 دن کی تنخواہ 28 ہزار 836 روپے مقرر کی گئی جبکہ ہنر مند افراد کے زمرہ اے میں شامل اساتذہ، مڈل سکول اساتذہ اور الیکٹریشنز کی تنخواہ 28 ہزار 253 روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ ہنر مند افراد کے زمرے بی میں لیب اسسٹنٹ، جونیئر ٹیچر، پرائمری سکول ٹیچر اور آرٹ ٹیچر کی تنخواہ 27 ہزار 583 روپے مقرر کی گئی ہے۔

اساتذہ کی تنخواہوں کا معاملہ

اس تمام معاملے کے قانونی پہلو پر بات کرنے کے لیے لاہور میں ایڈووکیٹ احمر مجید سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے بتایا کہ پنجاب میں ’پنجاب منیمم ویجز ایکٹ 2019‘ (Punjab Minimum Vages Act)) لاگو ہوتا ہے، جس کے تحت ایک بورڈ بنتا ہے جسے ایک سے تین سال کے اندر کم سے کم اجرت کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ اس میں ہنر مند اور غیر ہنر مند سبھی زمرے کے ورکرز شامل ہوتے ہیں۔ 

احمر کے مطابق کم سے کم 25 ہزار روپے اجرت غیر ہنرمند ملازمین کے لیے مقرر ہے جبکہ ہنر مند افراد کی تنخواہیں ان کے کام اور گھنٹوں کی مناسبت سے طے ہوتی ہے۔

’جہاں تک سکولوں کی بات ہے تو وہاں آٹھ گھنٹے کام نہیں کرواتے بلکہ وہاں چھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور گھنٹے کم ہونے کی وجہ سے تنخواہ بھی اسی حساب سے دی جاتی ہے اور آجر یہ کہہ کر خود کو زیادہ پیسے دینے سے بچا لیتا ہے کہ تنخواہ حکومت نے مقرر کی ہے وہ ہم اس لیے نہیں دے رہے کیونکہ ہم مقررہ آٹھ گھنٹوں سے کم کام کروا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ایڈووکیٹ احمر: ’اب اگر کسی کو 18 ہزار روپے تنخواہ بھی مل رہی ہے تو وہ بھی کوئی بہتر سکول ہی ہوگا ورنہ کچھ سکول تو ایسے بھی ہیں جو اب بھی پانچ سے دس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ نہیں دیتے۔ اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ حالانکہ اساتذہ اوور ٹائم بھی لگا رہے ہوتے ہیں جیسے گھر جا کر طلبہ کی کاپیاں چیک کرنا یا پیپرز بنانا، ان سب کے لیے ایکسٹرا پیسے نہیں دیے جاتے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے سیکشن 11  کے مطابق کوئی بھی آجر کم سے کم تنخواہ مقرر ہونے کے بعد اپنے ملازم کو اس سے کم رقم نہیں دے گا اور اگر ایسا ہو تو اسے چھ ماہ کی قید اور 25 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ 

احمر مجید نے بتایا کہ اگر کسی ملازم کو مقررہ تنخواہ سے کم رقم دی جارہی ہے تو وہ شکایت کر سکتا ہے۔ مگر شکایت کا عمل پیچیدہ ہے۔

’ملازم براہ راست شکایت نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی شکایت لیبر انسپکٹر کے پاس لے کر جائے گا۔ لیبر انسپکٹر مطمئین ہوگا تو وہ شکایت آگے لے جانے کا عمل شروع کرے گا۔ ہر ضلعے میں ایک لیبر انسپکٹر مقرر کیا گیا ہے اور شکایات اس کے دائرہ اختیار میں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پنجاب منیمم ویجز ایکٹ 2019 کے سیکشن  18 کے تحت  لیبر انسپکٹر کے ذریعے شکایت مجسٹریٹ عدالت میں  جائے گی اور  اے کلاس مجسٹریٹ اس انسپکٹر کی شکایت کو سنے گا۔ 

ایڈوکیٹ احمر کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آجر ملازم کو رکھ لیتے ہیں لیکن انہیں کوئی ایسی تحریری دستاویز نہیں دیتے جو ان کی ملازمت کو ثابت کر سکے اور نہ ہی انہیں مقررہ تنخواہ دیتے ہیں۔

’ایسی صورت حال میں ضروری نہیں ہے کہ ملازم عدالت میں اس ادارے کی جانب سے دی گئی تحریری دستاویز سے ہی ثابت کریں کہ وہ ان کے ملازم ہیں۔ وہ کوئی بھی ایسا ثبوت لاسکتے ہیں جس کے ذریعے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس ادارے میں کام کرتے ہیں جیسے حاضری رجسٹر کا ریکارڈ، ملازمت کا کوئی کارڈ یا بینک اکاؤنٹ میں موصول ہونے والی تنخواہ کا کوئی ثبوت۔ وہ اس ثبوت کے ساتھ لیبر انسپکٹر کے پاس جائیں گے اور اس کے ذریعے مجسٹریٹ فرسٹ کلاس کے پاس شکایت درج ہوگی۔‘

ساتھ ہی احمر کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے یہ عمل اتنا طویل اور پیچیدہ ہے کہ ملازمین خاص طور پر غیر ہنر مند ملازمین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جائیں۔ دوسرا انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ  شکایت کی تو سب سے پہلے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا، اگرچہ قانون یہ کہتا ہے کہ شکایت کرنے والے کو نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا مگر ہمارے ہاں قوانین پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سارا عمل 18 سال سے کم عمر ملازمین کے لیے اور بھی مشکل ہے۔ پنجاب میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق 15 سے 18 سال کی عمر کا بچہ کام کر سکتا ہے۔ وہ بچہ شکایت کا یہ عمل نہیں اپنا سکتا۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر لیبر اینڈ ویلفیئر ندیم اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’حال ہی میں ہمارے قانون میں ترمیم ہوئی ہے کہ نجی سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی لیبر قوانین کے اندر شامل کیا جائے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے تو ان کے لیے کم سے کم اجرت آٹھ گھنٹے روزانہ اور 48  گھنٹے ہفتہ وار کام کرنے کے حساب سے طے کی اجاتی ہے۔ اساتذہ سکول میں آٹھ گھنٹے نہیں گزارتے۔ وہاں معاملہ مختلف ہو جاتا ہے اس لیے وہ منیمم ویج 25 ہزار سے کم ہو کر 18 یا 19 ہزار روپے تک بن جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے حکومت جو نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اس میں واضح طور پر گھنٹوں کا حساب لکھا ہوا ہوتا ہے۔

بقول ندیم اختر: ’کم اجرت کی شکایت ہمارے پاس لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ہی کی جاتی ہیں۔ سکولوں سے تو شکایات موصول نہیں ہوتیں، لیکن زیادہ تر شکایات فیکٹریوں، دکانوں اور چھوٹے صنعتی یونٹس وغیرہ سے آتی ہیں۔

’شکایت ملنے کے بعد ہمارے لوگ اس کی تحقیق کرتے ہیں اور پھر مقدمہ چلاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کئی کیسز آتے ہیں جنہیں ہم آگے لے کر جاتے ہیں اور اس حوالے سے ہم ماہانہ رپورٹس بھی بناتے ہیں، جس میں ہم بتاتے ہیں کہ کتنے یونٹس چیک کیے، کہاں کہاں قانون پر عمل درآمد کروایا اور کتنوں پر مقدمہ چلایا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان