حیدر آباد کا ہومسٹیڈ ہال جو اب حسرت موہانی لائبریری ہے

اس عمارت کو 1969 میں حسرت موہانی کے نام سے منسوب کیا گیا اور 2009 میں ضلعی حکومت نے اسے لائبریری کی شکل دی۔ 

صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارت ہومسٹیڈ ہال ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصل شکل میں بحال ہے اور ’اسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔‘

1905 میں برطانوی حکومت نے  ڈاکٹر ہومسٹیڈ کے نام سے یہ عمارت تعمیر کروائی تھی۔

اس حوالے سے ہومسٹیڈ ہال کے سینیئر انچارج  فدا حسین میتلو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1869 کے دوران حیدر آباد کے طول و عرض میں ہیضے کی وبا پھیلی جس نے بڑی آبادی کو متاثر کیا۔

ڈاکٹر ہومسٹیڈ نے اس وبا کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا اور اسی باعث اس عمارت کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔

فدا حسین کے مطابق اس عمارت کو 1969 میں حسرت موہانی کے نام سے منسوب کیا گیا اور 2009 میں ضلعی حکومت نے اسے لائبریری کی شکل دی تھی۔

دو ستمبر 2014 کو یہ لائبریری اپنی قدامت کی بنا پر محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی لائی گئی تھی۔

اس لائبریری میں مقابلے کے امتحانات کے لیے الگ اور خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ سیکشن موجود ہیں۔

یہاں اب 20 ہزار کتابیں موجود ہیں جن میں 10 ہزار اردو، آٹھ ہزار انگریزی اور دو ہزار سندھی کتب شامل ہیں۔

فدا حسین نے مزید بتایا کہ اس عمارت کو بنانے میں چونے، اینٹ اور مٹی کا استعمال کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس عمارت میں ایک بڑا ہال ہے جہاں تقسیم ہند سے پہلے محافل موسیقی اور مشاعرے ہوا کرتے تھے۔

’دو صنعت کار بھائیوں وسیا مل اور ہیرا نند نے ایک ریڈنگ روم اپنے لیے تعمیر کروایا تھا، ان کا نام عمارت میں آج بھی کندہ ہے۔ اس کمرے میں کاشی گری کا عمدہ نقش موجود ہے۔

’مختلف ادوار کے دوران عمارت میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی۔ 1942 میں یہاں جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی نے کانگریس اجلاس کی صدارت بھی کی۔

’ہندوستانی رہنما موہن لال کرم چند گاندھی نے بھی اس عمارت میں خطاب کیا تھا جن کی یاد میں ایک ستون یہاں نصب ہے۔

’قیام پاکستان کے بعد 1956 سے 1962 تک یہ عمارت ریڈیو پاکستان کا ہیڈ آفس رہی اور شیخ ایاز، عابدہ پروین، مصطفیٰ قریشی، محمد علی سمیت الن فقیر جیسے بڑے فنکاروں کی میزبانی کا شرف اسے حاصل رہا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا