پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں ان دنوں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے سلسلے میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے میں مصروف ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان پہلا ٹیسٹ 1954 میں کھیلا گیا تھا، جس کے بعد یہ دونوں ٹیمیں اب تک درجنوں میچز کھیل چکی ہیں۔
اس تحریر میں ان دونوں ممالک کے درمیان کھیلے جانے والے پانچ یادگار ٹیسٹ میچوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اوول ٹیسٹ: پاکستانی ٹیم کا پہلا دورہ انگلینڈ
پاکستان کو دو سال قبل ٹیسٹ کا درجہ ملنے کے بعد اس کی ٹیم پہلی بار انگلینڈ کے دورے پر گئی۔
کھیل میں ’بچے‘ پاکستانی کرکٹرز نے مضبوط میزبان ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔ فاسٹ بولر فضل محمود نے چوتھے میچ میں 12 وکٹیں حاصل کیں۔
فرینک ٹائیسن اور پیٹر لوڈر کی طرف سے پاکستان کو صرف 133 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد پاکستان فاسٹ بولرز فضل محمود (6-53) اور خان محمد (4-58) نے تین رنز کی معمولی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
پاکستان اپنی دوسری اننگز میں 164 رنز بنانے میں کامیاب ہو گیا اور انگلش ٹیم کو 168 رنز کا ہدف دے دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم میں ڈینس کونپٹن اور لین ہٹن جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود فضل محمود نے 46 رنز دے کر چھ وکٹیں لین۔
اپنا نواں ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم نے یہ میچ 24 رنز سے جیت لیا۔
فیصل آباد ٹیسٹ 1987: انگلش کپتان اور پاکستان امپائر کا میدان میں جھگڑا
تین میچوں کی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کو انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے درمیان میدان میں ہونے والے جھگڑے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
رانا نے گیٹنگ پر الزام لگایا کہ انہوں نے بولر کے دوڑنے کے بعد فیلڈ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
اس الزام کے بعد بلند آوازوں کے ساتھ ایک دوسرے کو انگلیاں چبھوئی گئیں۔
امپائر رانا نے گیٹنگ سے معافی کا مطالبہ کیا لیکن ابتدا میں انہوں نے انکار کر دیا اور اس طرح تیسرے روز کوئی کھیل نہ ہو سکا۔
بات اتنی بڑھ گئی کہ باقی ماندہ ٹور کھٹائی میں پڑ گیا اور دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کو مداخلت کرنی پڑی۔
بالاآخر گیٹنگ ٹھنڈے ہو گئے اور میچ دوبارہ شروع ہو گیا۔ کشیدگی کے ماحول میں ہونے والا جوش سے عارضی میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔
کراچی ٹیسٹ 2000: 34 میچوں کے بعد پاکستان کی شکست
انگلینڈ نے پاکستان میں اپنی دوسری ٹیسٹ فتح حاصل کرتے ہوئے نیشنل سٹیڈیم میں میزبان ملک کی 34 میچوں کے ناقابل شکست سلسلے کو توڑ دیا۔
کھیل کے پانچوں روز پاکستان نے چھ وکٹوں کے نقصان پر صرف 30 رنز بنائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح انگلینڈ کو 176 رنز کا ہدف ملا جو اس نے اندھیرا ہونے تک صرف 15 گیندیں باقی پر چھ وکٹیں دے کر حاصل کرلیا۔
پاکستان کے کپتان معین خان نے کم روشنی کے پیش نظر میچ کو منسوخ کرنے کی بار بار اپیل کی لیکن ویسٹ انڈین امپائر سٹیو بکنر نے ان کی درخواستیں مسترد کر دیں اور انہیں یاد دلایا کہ کم روشنی کا مسئلہ اٹھانا صرف بیٹنگ سائیڈ کا استحقاق ہے۔
اوول ٹیسٹ 2006: انضمام الحق کا میدان میں آنے سے انکار
اوول کے میدان میں کھیلا جانے والا یہ ٹیسٹ دلچسپ اختتام کے لیے تیار تھا ٰ کہ چوتھے دن انضمام الحق نے میدان میں آنے سے انکار کر دیا۔
پاکستانی کپتان کو آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر اور ویسٹ انڈین کپتان بلی ڈوکٹروو کے فیصلے پر غصہ تھا جنہوں نے بال ٹیمپرنگ کی وجہ سے انگلینڈ کے مجموعے میں پانچ رنز جوڑ دیے تھے۔
ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے تعطل کے بعد بالآکر انضام اپنی ٹیم کو میدان سے باہر لے گئے جس پر امپائروں نے فیصلہ دیا کہ پاکستان یہ میچ پہلے ہی ہار چکا تھا۔
بعد میں انضمام الحق کو بال ٹیمپرنگ کے الزام سے بری کر دیا گیا لیکن ان کے اقدامات کی وجہ سے ان کے چار ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں حصہ لینے کی پابندی لگا دی گئی۔
امپائر ہیئر کی بھی سرزنش کی گئی انہیں تقریباً دو سال تک ایلیٹ پینل سے معطل کر دیا گیا۔
لارڈز ٹیسٹ 2010: سپاٹ فکسنگ سکینڈل
ٹیسٹ کے چوتھے دن کا آغاز سپاٹ فکسنگ کے سکینڈل میں ملوث تین پاکستانی کھلاڑیوں کی اخبار دی نیوز آف دی ورلڈ میں چونکا دینے والی رپورٹ کے سائے میں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سپورٹس ایجنٹ مظہر مجید نے پاکستان کے بولروں محمد عامر اور محمد آصف سے جان بوجھ کر نو بال کروانے کے لیے چھپ کر کام کرنے والے رپورٹر سے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ لیے۔
رپورٹ کے مطابق عامر اور آصف نے کپتان سلمان بٹ کے حکم پر میچ کے دوران نو بالز کروائیں۔ بعد ازاں تینوں کو برطانیہ میں جیل بھیج دیا گیا اور ان کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔
انگلینڈ نے اس میچ میں اننگز اور 225 رنز سے کامیابی حاصل کر کے سریز3-1 سے جیت لی۔