چمن: ’ہر وقت ڈر رہتا ہے کب کوئی گولہ ہمارے گھر پر آ گرے‘

چمن میں حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد مقامی آبادی خوف کا شکار ہے۔

15 دسمبر، 2022 کو افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کے نتیجے میں ہونے والے ایک زخمی کو رشتہ دار چمن کے اسپتال منتقل کر رہے ہیں (اے ایف پی) 

کوئٹہ شہر کے شمال میں سو کلومیٹر دور پاکستان کو زمینی راستے کے ذریعے افغانستان سے ملانے والا ضلع چمن واقع ہے، جہاں پڑوسی ملکوں کے درمیان ’باب دوستی‘ کے ذریعے آمدورفت اور تجارت ہوتی ہے۔ 

گذشتہ دنوں چمن میں پاک افغان سرحد پر تعینات دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں افغانستان کی طرف سے طالبان اہلکاروں نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور ڈپٹی کمشنر چمن کے مطابق شہری علاقوں میں گرنے والے گولوں سے 14 افراد زخمی ہوئے۔ 

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے جمعے کو ایک بیان میں بتایا کہ چمن میں افغان سرحدی سکیورٹی اہلکاروں کی بلا اشتعال گولہ باری پر اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔ 

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے چمن میں بلااشتعال گولہ باری کے حالیہ واقعات پر شدید مذمت کی ہے۔  

ممتاز زہرا بلوچ نے مزید کہا کہ ملاقات میں اعادہ کیا گیا کہ شہریوں کا تحفظ دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے۔

’پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور اس مقصد کے لیے پاک افغان سرحد پر امن بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔‘

ضلع چمن کے رہائشی حمید اللہ کا گھر افغان سرحد کے قریب واقع ہے اور حالیہ واقعات سے انہیں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان سرحد پر واقع گاؤں اڈہ کہول کے رہائشی حمید اللہ نے بتایا کہ ان کی زندگی ہر وقت پریشانی اور سرحدی کشیدگی کے باعث مشکلات سے دوچار ہے۔  

پاکستان افغانستان سرحد اڈہ کہول کے تقریباً درمیان میں سے گزرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ کل جب پاکستان اور طالبان فورسز کے درمیان سرحدی چوکی کی تعمیر پر جھگڑا اور فائرنگ ہوئی تو ان کے گاؤں اڈہ کہول پر افغان سرحد سے مارٹر گولے فائر کیے گئے۔

’ہمارے گاؤں میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جانے پر مجبور ہوئے، یہ میری زندگی کا سب سے ہولناک منظر تھا۔

’اتوار کو بھی چمن کی سرحد پر فائرنگ ہوئی تھی، اس وجہ سے ہمارے دلوں میں پہلے سے خوف موجود تھا کہ دوبارہ یہ واقعہ ہوا۔‘

حمیداللہ اور گاؤں کے دوسرے رہائشیوں کے لیے رواں ہفتے کے دوران خوف اور ڈر کا ماحول بنا رہا۔

’ہمیں ہر وقت یہ خوف لگا رہتا کہ کب کوئی مارٹر گولہ ہمارے گھر پر آ گرے اور مالی اور جانی نقصان پہنچا دے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سرحد پر فائرنگ کی صورت میں ان کے لیے کہیں بھی جانا مشکل ہو جاتا ہے۔

’نہ ہم گھر بار چھوڑ سکتے ہیں نہ ہی کوئی دوسری جگہ محفوظ رہتی ہے۔ فائرنگ کی صورت میں ہم ہر طرف سے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔‘ 

اڈہ کہول کے رہائشی کا مزید کہنا تھا کہ دن کے دوران خوف کچھ کم ہو جاتا ہے، لیکن راتوں میں کسی بھی آواز کے باعث وہ اور ان کے بچوں نیند سے جاگ جاتے ہیں۔

’ہر آواز کو ہم سرحد پر جنگ چھڑنے سے تعبیر کرتے ہیں، یہ ہمارے خوف کا عالم ہے، جو ہماری زندگیوں کے ساتھ جڑ گیا ہے۔‘ 

حمیداللہ کا کہنا تھا کہ خوف اور ڈر کی اس صورت حال کے برقرار رہنے کی سورت میں وہ اپنی آبائی زمینیں اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اتوار کو سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں چمن میں ایف سی قلعے کے سامنے ایک دکان مارٹر گولہ لگنے سے تباہ، اور اس میں موجود دو بھائی ہلاک، اور کئی دوسرے زخمی ہوئے تھے۔

ضلع چمن کی سول سوسائٹی کے زیر اہتمام جمعے کو سرحد پار سے ہونے والی جارحیت کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرین نے افغان فورسز کی جانب سے بار بار فائرنگ کی مذمت کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری کی جانب سے جمعرات کی رات جاری بیان میں بتایا گیا کہ پاک افغان چمن بارڈر پر افغان فورسز کی شہری آبادی پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولا باری کی گئی۔

ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری نے برادر ہمسایہ اور اسلامی ملک کی طرف سے اس طرح کی حملے کو بلا جواز اور سفاکانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہری آبادی کو نشانہ بنانا انسانیت سوز اور اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔

ڈپٹی کمشنر چمن نے مزید کہا: ’چمن سرحد پر فائرنگ بارڈر پر باڑ لگانے کے تنازع پر ہوئی، جبکہ اس سے قبل بھی افغان فورسز شہری آبادی کو نشانہ بنا چکی ہیں، جس میں چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ حالیہ واقعے میں بھی شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان پہلے ہی جنگوں سے تباہ حال ہے، اور اسی وجہ سے اسلام آباد صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔

’جنگ کے نتیجے سے ہم بخوبی واقف ہیں، جنگوں سے صرف آہیں اور سسکیاں جنم لیتی ہیں اور یہ تباہی و بربادی لاتی ہیں۔ جس سے ہم اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کو اور خود اپنے ملک کو حتی الامکان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’ہم اپنے افغان بھائیوں سے تمام متنازع مسائل مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان