کابل میں کار ریسنگ اور ڈرفٹنگ کا بڑھتا شوق

کابل میں کار ریسرز کے ایک گروپ کے پاس تقریباً 60 مہنگی گاڑیاں ہیں، جن کی مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ ریس کروائی جاتی ہے۔

سپورٹس کار رکھنا اور اس کے مقابلوں کا انعقاد امیروں کا شوق سمجھا جاتا ہے لیکن افغانستان جیسے بدحال ملک میں ایسا نہیں۔

ایک طرف جہاں افغانستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے وہیں کابل میں الٹر شدہ گاڑیوں کی نمائش اور ریسنگ کا شوق زور پکڑ رہا ہے۔

کابل میں ’بُلز پرو ریسز‘ کے نام سے ایک گروپ 2008 سے متحرک ہے۔

گروپ کے پاسں 60 الٹر شدہ گاڑیاں ہیں، جن کی مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ریس کروائی جاتی ہے۔

بُلز پرو ریسز کے اسسٹنٹ فرہاد شمس نے بتایا کہ ریسنگ ایونٹس کا خرچہ وہ خود اٹھاتے ہیں جبکہ سپانسرز سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

بُلز پرو ریسز کے ایک اور اسسٹنٹ عبدالولی نیازی کا کہنا تھا کہ وہ پروفیشنل کار ریسر ہیں اور یہ شوق انہیں ہالی وڈ کی جیمز بانڈ جیسی فلمیں دیکھ کر پیدا ہوا۔

’میں سوچتا تھا کہ کب ایسی ڈرائیونگ کر پاؤں گا۔ اس لیے آہستہ آہستہ سیکھتا رہا اور آج اس مقام تک پہنچ گیا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کی دو سپورٹس کاریں ہیں، جن میں ایک سکائی لینڈ آر 33 اور دوسری سکائی لینڈ جی ٹی آر 32 ہے۔

’اس کےعلاوہ بھی کئی اچھی گاڑیاں ہمارے پاس ہیں جیسے ایم آر ٹو اچھی گاڑی ہے۔ عام  کاروں میں ہم تبدیلی کر کے انہیں سپورٹس کاروں جیسا بنا لیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالولی نے کہا کہ وہ کار ریسنگ کا شوق رکھتے ہیں، تاہم اس کے لیے بڑی جگہ موجود نہیں۔

’ہم اولمپکس والوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں مناسب جگہ دیں، جس سے نوجوانوں میں تحریک پیدا ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ اولمپکس حکام نے انہیں کار ریسنگ کے لیے مناسب جگہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اس ایونٹ کے سپانسر محمد داود نے بتایا کہ اس پروگرام کو 2010 سے چلایا جا رہا ہے۔

’تاہم موجودہ سیاسی تبدیلیوں کے باعث کچھ مشکلات پیش آ رہی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے کار ریسنگ بند بھی رہی۔‘

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل