2022 میں پاکستان کی پانچ بہترین فلمیں

2022 کی پانچ بڑی فلموں کی بات کریں تو یہ فہرست بنانا بہت سہل ہے، اگر پانچ ناکام فلموں کی فہرست بنانی ہوتی تو بہت ہی مشکل ہوتی کیونکہ اس سال ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور کامیابیاں محدود۔

 فلم ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پذیرائی سمیٹی اور اب تک دو سو کروڑ کا ہندسہ پار کرنے والی پہلی پاکستانی فلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے(فلم پوسٹر)

سال 2022 پاکستانی سینیما اور فلمی صنعت کے لیے کیسا رہا؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں کیونکہ کرونا کی عالمی وبا کے بعد ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک بند رہنے والے سینیما کھلے تو ان کی بھوک تو بہت زیادہ تھی لیکن مواد بہت کم۔

بالی وڈ فلموں کو تو فروری 2019 ہی میں خدا حافظ کہہ دیا گیا تھا اور پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی صورتِ حال کے تناظر میں اس کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔

ایسے میں نظریں ہالی وڈ اور کچھ مخصوص پاکستانی فلموں پر جمی تھیں جن میں چند ایک کے علاوہ سب ہی نے بری طرح مایوس کیا۔

اگر ہم 2022 کی پانچ بڑی فلموں کی بات کریں تو یہ فہرست بنانا بہت سہل ہے، اگر پانچ ناکام فلموں کی فہرست بنانی ہوتی تو بہت ہی مشکل ہوتی کیونکہ اس سال ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور کامیابیاں محدود۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ

سال 2022 کی کامیاب ترین فلم جس نے پاکستانی سینیما اور فلمی صنعت کو ایک مکمل نئی جہت عطا کی، وہ ہے ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘۔

اس فلم نے جہاں فلم بینوں کو سینیما کی جانب کھینچا بلکہ وہ افراد بھی سینیما آئے جو گذشتہ کئی برسوں میں سینیما نہیں گئے تھے۔

حمزہ علی عباسی، فواد خان، ماہرہ خان اور حمائمہ ملک کی اس فلم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پذیرائی سمیٹی اور اب تک دو سو کروڑ کا ہندسہ پار کرنے والی پہلی پاکستانی فلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔

یہ فلم نہ تو 1979 کی مولاجٹ کا سیکوئل ہے نا پری کوئل۔ یہ اصل میں ایک مکمل ری بوٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے دیکھنے والوں نے بہت زیادہ پسند کیا۔

دیکھنے والوں کو فواد اور ماہرہ کا رومانس بھی پہلی بار بڑے پردے پر دیکھنے کو ملا اور طویل غیر حاضری کے بعد حمزہ علی عباسی اور حمائمہ ملک بھی نظر آئے۔

قائدِ اعظم زندہ باد

پاکستان کی مشہور پس پردہ جوڑی فضہ علی میرزا اور نبیل قریشی کی پیشکش اس فلم میں مرکزی کردار ماہرہ خان اور فہد مصطفٰی  ادا کر رہے تھے.

 ان کی اس رومانوی مگر ایکشن اور تھرلر سے بھرپور کہانی نے فلم بینوں میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ خاص کر کراچی میں تو کئی روز تک اس فلم کے ٹکٹ ہی نہیں مل رہے تھے۔

فہد مصطفٰی پہلی بار ایک پولیس والے کے روپ میں نظر آئے اور ماہرہ خان نے بھی ڈگر سے ہٹ کو منفرد کردار کیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں ہی پہلی مرتبہ ایک ساتھ کسی پراجیکٹ کا حصہ بنے اور پہلا ہی کام اتنا مقبول ہوگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ فلم معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعنوانی کے خلاف آواز تھی، جسے نبیل قریشی نے بہترین انداز میں فلمی مسالے کے ساتھ پیش کیا۔

فلم کا مرکزی کردار گلاب (فہد مصطفٰی) ایک بدعنوان تھانیدار ہے جو صرف پیسہ جمع کرنا چاہتا ہے۔ ماہرہ خان کا اتنا اچھا روپ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا چاہے رومانس ہو یا ڈانس۔

یہ فلم آٹھ جولائی کو ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم نے ’لندن نہیں جاؤں گا‘ کے ساتھ مل کر پاکستانی فلموں کی ناکامیوں کے سلسلے کو روکا جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔

فلم کے گانے ’لوٹا رے‘ اور ’دل کرے دھک دھک دھک‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

لندن نہیں جاؤں گا

آٹھ جولائی کو ہی ریلیز ہونے والی اس فلم نے بھی پاکستانی فلموں کی ناکامیوں کے سلسلے کو روکا اور ملک و بیرون ملک کافی اچھا باکس آفس رہا۔

اس فلم کی خاص بات اس کے اداکار ہیں۔ ہمایوں سعید، مہوش حیات اور کبریٰ خان کی جاندار اداکاری نے فلم میں دلچسپی برقرار رکھی۔

انتقام کے شعلوں میں جھلستی لڑکی کے کردار میں مہوش حیات سب کو بھا گئیں۔

ہمایوں سعید کا اس فلم میں کردار اگرچہ بہت حد تک فواد کھگا جیسا ہی تھا، یعنی پریشان عاشق جو ہر وقت بےقرار رہتا ہے۔

یہاں کبریٰ خان کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے پنجابی لڑکی کے اپنے کردار میں خود کو ایسے پیش کیا کہ یہ کردار یادگار بناگئیں۔

گھبرانا نہیں ہے

عید الفطر کے موقع پر پیش کی جانے والیل یہ فلم کافی دلچسپ تھی اور اس میں صبا قمر جیسی منجھی ہوئی اداکارہ مرکزی کردار ادا کررہی تھیں، تاہم اگر کسی کردار نے داد سمیٹی تو وہ سید جبران کا تھا۔

اس فلم نے عیدالفطر پر لگنے والی تمام فلموں سے زیادہ بزنس کیا تھا۔

ایک نیک نیت کھلنڈرے ناکام عاشق کا کردار اس فلم کی جان تھا۔ یہ فلم صبا قمر سے زیادہ جبران کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہے۔

فلم کی کہانی یہ تھی کہ ایک بیٹی کو یہ دکھانا ہے کہ وہ کسی بیٹے سے کم نہیں۔

مربوط کہانی اور جاندار مکالموں کی وجہ سے فلم میں کہیں اکتا دینے والا کوئی لمحہ نہیں تھا اور یہ مکمل تفریحی فلم ثابت ہوئی۔

جوائے لینڈ

پہلی چار فلمیں تو اپنے باکس آفس نمبرز کی وجہ سے ہیں مگر یہ فلم جس کی نمائش پر آج بھی پنجاب میں پابندی عائد ہے، اپنی عالمی پذیرائی کی وجہ سے اس فہرست میں جگہ بناتی ہے۔

2022 میں جہاں مولا جٹ نے دنیا بھر میں پاکستانی فلموں کو روشناس کروایا، وہیں پہلے کان کے فلمی میلے اور اس کے بعد دیگر کئی فلمی میلے میں متعدد ایوارڈ جیتنے والی یہ فلم جوائے لینڈ، پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد ہوئی اور پھر پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی پاکستانی فلم آسکر کی شارٹ لسٹ یعنی 15 فلموں کی فہرست میں جگہ بنا سکی ہو۔

یہ لاہور کے ایک متوسط طبقے کے ایک گھر کی کہانی ہے، جہاں احساسات کی اہمیت ہے اور نہ ہی جذبات کا خیال۔

اس فلم کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں جبر کوئی ایک شخص نہیں بلکہ معاشرہ کر رہا ہے، خواب دیکھنا برا نہیں بلکہ جرم سمجھا جاتا ہے، مختلف ہونا یا سوچنا قابل سزا تصور ہوتا ہے۔

جوائے لینڈ کی اہم بات اس میں ٹرانس جینڈر بیبا کا کردار ہے، جو ایک ٹرانس جینڈر علینا خان نے ادا کیا ہے، جو اپنی جگہ ایک کافی اہم پیش رفت ہے۔

بس اب انتظار ہے 24 جنوری کا، جب امید ہے کہ جوائے لینڈ آسکرز کی حتمی پانچ نامزدگیوں میں جگہ بنالے گی۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی فلم