’قائدِ اعظم زندہ باد‘ اور ’لندن نہیں جاؤں گا‘ نے سینیما آباد کردیے

اس عید پر ریلیز ہونے والی دونوں اہم فلموں نے عوام کو سینیما گھروں کی جانب کھینچا، اور پہلے ہی ہفتے میں کروڑوں کا بزنس دے کر یہ بتادیا کہ ابھی پاکستانی فلمی صنعت سےمایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

(تصاویر: فلم پوسٹرز لندن نہیں جاوں گا/  قائداعظم زندہ باد)

عیدالاضحٰی پر چلنے والی تیز ہواؤں نے پاکستانی کی فلمی صنعت پر چھائے کالے بادلوں کو ہٹاکر اس کے مستقبل کے تاب ناک ہونے کے واضح اشارے دیے ہیں۔

اس عید پر ریلیز ہونے والی دونوں اہم فلموں نے عوام کو سینیما گھروں کی جانب کھینچا، اور پہلے ہی ہفتے میں کروڑوں کا بزنس دے کر یہ بتادیا کہ ابھی پاکستانی فلمی صنعت سےمایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں ہم فلم ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ اور ’لندن نہیں جاؤں گا‘ ایک جائزہ پیش کررہے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے سینیما آباد کیے اور کیوں آپ کو یہ فلمیں دیکھنی چاہیئں۔

’قائدِ اعظم زندہ باد‘

یہ فلم بنیادی طور پر ایک سماجی پیغام لیے ہوئے ہے جسے ہدایت کار نبیل قریشی نے بہت عمدگی کے ساتھ تمام فلمی مسالے چھڑک کر پیش کیا ہے۔

فلم کا مرکزی کردار گلاب (فہد مصطفٰی) ایک بے انتہا بدعنوان تھانیدار ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پیسہ جمع کرنا ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس کا باپ ایک بہت ہی ایماندار پولیس آفیسر رہا ہے۔ فضہ علی میرزا اور نبیل قریشی کی یہ فلم بھی ان کی دیگر فلموں کی طرح ایک اہم سماجی پیغام لیے ہوئے ہے۔ یہ پیغام ہے بدعنوانی اور رشوت کی وجہ سے ہم پاکستان کے بانی کو ناراض کررہے ہیں۔

فلم کی کہانی حقیقت سے دور مگر بہت فلمی ہے، مگر یہی چیز تو اسے منفرد بناتی ہے۔

یہ فلم فہدمصطفٰی کی فلم ہے، جس میں وہ اپنے پورے جوبن پر نظر آئے، ایکشن، رومانس، کامیڈی، ڈانس کے چاروں عناصر ملا کر ایک مکمل فلمی اداکار کے روپ میں ڈھل کر انہوں نے بتادیا وہ اب سپر سٹار ہیں۔

ماہرہ خان اپنے ہر فریم میں بہت ہی خوبصورت نظر آئی ہیں، ان کا کردار ایک ہمدرد اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن کا ہے جو انہوں نے مزے سے کیا ہے۔ اگر آپ نے آج تک ماہرہ خان کی تمام فلمیں دیکھی ہیں تو آپ کو یقیناً واضح ہوگا کہ ان کا اتنا اچھا روپ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، چاہے رومانس ہو یا ڈانس، اچھی بات یہ رہی کہ یہ سب ان کی جانب سے فطری انداز میں ہوا، انہوں نے بہت زیادہ جان مارنے کی کوشش نہیں کی جس سے سینیما کے پردے پر اچھا تاثر رہا۔

تاہم ماہرہ خان کے چاہنے والوں کو بتادیں کہ فلم میں ان کا کام کافی مختصر ہے اور تشنگی چھوڑ جاتا ہے کیونکہ کہانی کا مرکز کردار فہد مصطفٰی کا ہے۔

فلم میں جاوید شیخ کے کردار کی بات کرنا ضروری ہے ، وہ ایک سندھی  پولیس کانسٹیبل کے روپ میں جب بھی آئے وہ سین دلچسپ بنادیا۔

موسیقی کی بات کریں تو علی ظفر کا گانا ’دھک دھک‘ سینیما پر دھنک رنگ بکھیرتا ہے، اس گانے میں ماہرہ خان اور فہد مصطفٰی کی کیمسٹری بہت اچھی ہے۔ اس کی نسبت ’لوٹا رے‘ فلمی ٹھمکے سے بھرپور گانا ہے۔

فلم میں ایکشن سین اچھے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اچھا کیا گیا ہے جو ہماری فلموں میں کم ہی ہوتا ہے۔ فلم کی کہانی بھی تیز ہے اور عید کی مناسبت سے بہت اچھی پیش کش ہے۔

’لندن نہیں جاؤں گا‘

تقریبا تین سال بعد مہوش حیات اور چار سال بعد ہمایوں سعید کی فلم سینیما میں لگے یہی کافی ہے، لیکن یہ فلم اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کا شمار کرونا سے متاثرہ فلموں میں ہوتا ہے جس کر عکاسی رواں برس مکمل ہوئی، ان دو سالوں میں فلم کو اسی حساب سے بنانا مشکل کام تھا جسے کر ہی لیا گیا۔

اس فلم کے بارے میں شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا ری بوٹ ہے۔ کردار تو ملتے جلتے ہیں مگر کہانی بہت مختلف ہے۔

کہانی کی بات کریں تو یہ کہانی بہاولپور میں 28 سال پرانے قتل کے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشمنی کی ہے۔ فلم کی اچھی بات یہ ہے کہ بہت دیسی کہانی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کافی سست اور طویل ہے جو کچھ مقامات پر بوجھل محسوس ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس فلم کی جان اس کے اداکار ہیں، ہمایوں سعید مہوش حیات، کبریٰ خان کے علاوہ سہیل احمد نے بھی اس میں بہت جان ڈالی۔ ان سب کی جاندار اداکاری نے فلم بینوں کو سینیما میں ٹکے رہے پر مجبور رکھا۔

مہوش حیات نے ایک بار پھر بتادیا کہ وہ باکس آفس کی ملکہ کیوں ہیں۔ ایک ایسی لڑکی جو بدلے کی آگ میں جل رہی ہو اسے اس بہترین انداز سے اداکرنا ان ہی کا خاصہ ہے۔

ہمایوں سعید کا چوہدری جمیل کا کردار بہت حد تک فواد کھگا جیسا ہی تھا، لیکن اس بار اس میں بےساختگی اور بھولا پن زیادہ تھا۔ پریشان و ناکام عاشق جو ہر پل بےکل رہتا ہے، کسی کی نہیں سنتا وہ کرگئے، اور یہی چیز لوگوں کو سینیما گھر کھینچ لر لارہی ہے۔

ہمایوں سعید اور مہوش حیات کی موجودگی میں اپنا الگ تاثر قائم کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن کبریٰ خان کو داد دینے ہوگی کہ انہوں نے پنجابی لڑکی کے اپنے کردار میں خود کو ڈھال کر کچھ ایسے پیش کیا مختصر کردار بھی یادگار بناگئیں۔

سہیل احمد کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی جن کے مخصوص انداز نے کئی بار سینیما ہال کو کشتِ زعفران بنایا اور کبھی جذباتی کیا۔

فلم کے مکالمے بہت فلمی ہیں، اور مزاح سے بھرپور ہیں اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے، کیونکہ پوری فلم ہی مکالموں پر مبنی ہے اگرچہ دو ایکشن سین ہیں لیکن وہ محدود پیمانے کے ہیں۔

فلم کی موسیقی اس بار کچھ پھیکی سی ہے، اس سے پیشتر کی فلموں میں گانے کافی جاندار ہوتے تھے۔ فلم میں چند سین بہت تفصیل سے ہیں اور کچھ جگہوں پر کہانی اتنی تیزی سے آگے بڑھتی ہے کہ سوال چھوڑ جاتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہ سینیما میں دیکھنے کے لیے بہترین مقامی پیشکش ہے اور اب تک اس نے باکس آفس پر قائدِ اعظم زندہ باد سے زیادہ پیسے کمائے ہیں۔

عیدالاضحیٰ پر پیش کی جانے والی ان دنوں فلموں کو شائقین کی جانب سے ملنے والی پذیرائی اس بات کی دلیل ہے کہ سینیما ابھی ختم نہیں ہوا، مسئلہ اچھی فلموں کا تھا، اچھی فلم ہوگی تو لوگ سینیما جائیں گے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی فلم پالیسی کے بعد امید ہے کہ اب فلمیں بننے کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم