پولٹری ایسوسی ایشن کی وزیراعظم سے اپیل: مسئلہ ہے کیا؟

اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار میں وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’جناب عالی ہم تباہ ہو چکے ہیں، ہمیں بربادی سے بچائیں۔‘

چیئرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق پولٹری انڈسٹری سے 20 لاکھ افراد براہ راست منسلک ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کی موجودہ ابتر معاشی صورت حال کے پیش نظر ملک کی پولٹری ایسوسی ایشین نے مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیتے ہوئے اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا بھی کہا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن اور آل پاکستان سالونٹ ایکسٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے منگل کو اخبارات میں ایک اشتہار بھی شائع کروائے جس میں انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جناب عالی ہم تباہ ہو چکے ہیں، ہمیں بربادی سے بچائیں۔‘

آل پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے مرغی کے گوشت کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو سے تجاوز کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آل پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے چئیرمین چوہدری محمد اشرف کا کہنا ہے کہ گذشتہ ڈھائی ماہ سے پولٹری انڈسٹری کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ سویا بین اور کنولا کے جہاز رکے/پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ’ہم متعدد بار اپیل بھی کر چکے ہیں اور وزرا سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن تاحال اس مسئلہ کا حل نہیں نکلا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ وفاقی حکومت اور وزارت خوراک و زراعت سے متعلقہ مسئلہ ہے اور انہی سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم سے اس لیے اپیل کی ہے کیونکہ وزارت ہماری بات نہیں سن رہی۔‘

وزیر اعظم سے اپیل

وزیراعظم سے اپیل میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دو ماہ میں مرغی کے گوشت کی قیمت میں 162 روپے اضافہ ہوا ہے۔ یکم نومبر 2022 کو 358 روپے فی کلو فروخت ہونے والا مرغی کا گوشت آج 520 روپے فی کلو کی فروخت کیا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ ڈھائی ماہ سے سویا بین اور کنولا کے پھنسے ہوئے جہازوں کو تاحال ریلیز نہ کیا جانا ہے۔

’ان جہازوں کے پھنس جانے کی وجہ سے چار لاکھ ڈالر روزانہ زرمبادلہ کا نقصان ہو رہا ہے اور عوام پر 142 کروڑ روپے روزانہ کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔‘

پولٹری ایسوسی ایشن نے اپنی اپیل میں سویا بین کے بغیر مرغیوں کو کھلائی جانے والی خوراک بنانے کو ممکن قرار دینے کے عمل کو حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم کو معاملے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’جو لوگ آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ پولٹری فیڈ سویا بین کے بغیر بن سکتی ہے وہ آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔‘

مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟

چئیرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کہتے ہیں کہ معاملہ حل نہ ہونے کی صورت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گا اور اسی حوالےسے انہوں نے لاہور میں پانچ جنوری 2023 کو احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے۔

’اگر مسئلہ تب بھی حل نہ ہوا تو ہم اسلام آباد میں احتجاج کریں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ مرغی اور انڈوں کی کمی کی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ’اگر جہاز ریلیز نہیں کیے جاتے تو مرغی کا گوشت ایک ہزار روپے فی کلو سے تجاوز کر جائے گا۔ عوام کے لیے سستی پروٹین مرغی اور انڈا ہی تھے، وہ بھی انہیں دستیاب نہیں ہو سکیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورت حال کی وجہ سے پولٹری انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ ’کل ایک بڑی پولٹری فیکٹری ’ہائی ٹیک پولٹری فیڈ‘ بند ہوئی ہے جس سے چار ہزار ملازم منسلک تھے جہاں ملازمین کو ایک ماہ کا نوٹس دے کر نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے پیمانے کی فیڈ فیکٹریاں بھی بند ہو چکی ہیں، یہی صورت حال رہی تو ایسا مزید ہوگا۔‘

چئیرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق ’پولٹری انڈسٹری سے 20 لاکھ افراد براہ راست منسلک ہیں، موجودہ صورت حال برقرار رہی تو تقریباً سات لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔‘

حکومت کا کیا کہنا ہے؟

اس حوالے سے جب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم خود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں اور انہوں نے اس سے متعلق وزیر برائے خوراک کو بھی ہدایات دی ہیں۔

مریم اورنگزیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ ایک صوبائی معاملہ ہے۔ مانیٹرنگ، ذخیرہ اندوزی اور پرائس کنٹرول صوبائی سطح پر کی جاتی ہے۔ کوئی بھی نرخوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔‘

’اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی نہیں ہے تو کیسے حمزہ شہباز یا ن لیگ کی جانب سے اس معاملے پر اثرانداز ہونے کی خبریں سامنے آ سکتی ہیں؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صوبائی حکومتوں کو انتظامی اور مالیاتی اقدامات کرنے چاہییں تاکہ پاکستانی عوام اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ وزیر اعظم سے اس معاملہ پر غور کرنے کی استدعا ضرور کی گئی ہے لیکن صوبائی سطح پر اقدامات کے فقدان کی وجہ سے یہ مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت