اعلان جہاد صرف اسلامی ریاست کے سربراہ کی صوابدید: علما کا فتویٰ

سولہ علما کے جاری کردہ فتوے میں واضح کیا گیا کہ اسلامی ریاست میں قانون کی پاسداری اور امیر کی اطاعت لازم ہے، اور اس کی مخالفت بغاوت ہے۔

علمائے کرام نے فتوے میں واضح کیا کہ کسی مسلمان حکومت کے خلاف کارروائیاں کرنا بدترین گناہ ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے 16 علما نے اتوار کو جاری ہونے والے ایک فتوے میں کہا کہ اسلامی ریاست کے ہر شہری کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل نہیں، بلکہ یہ صرف سربراہ ریاست کی صوابدید ہے۔

14 صفحات پر مشتمل فتوے میں کہا گیا کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کی ذمہ داریوں میں اسلامی مبادیات کی حفاظت کرکے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا، اور دشمن سے سرحدات کی حفاطت شامل ہیں۔

گذشتہ دنوں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے امیر مفتی نور ولی محسود نے پاکستانی علما کے نام جاری ایک ویڈیو پیغام میں جہاد کے حوالے سے رہنمائی مانگی تھی۔

تین منٹ اور 31 سیکنڈ کی ویڈیو میں ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی نے، جو ابو منصور عاصم کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں، کہا تھا: ’آپ کے فتووں کی روشنی میں ہم نے جو جہاد شروع کیا تھا، اگر اس میں کوئی کمی بیشی نظر آتی ہو، اور ہم سے اس فتوے پر عمل میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو، یا ہم نے اپنا جہادی قبلہ تبدیل کیا ہو، تو آپ علمی دلائل کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں، ہم آپ کے دلائل سننے کے لیے تیار ہیں۔‘

کالعدم ٹی ٹی پی رہنما مفتی نور ولی محسود کو براہ راست مخاطب کیے بغیر علما نے پشاور کے ایک شہری محمد زاہد خان کے سات سوالوں کے جواب حالیہ فتویٰ جاری کیا۔

تاہم عوامی حلقوں میں اس کو ٹی ٹی پی کے امیر کے سوالوں پر علما کی مجموعی رائے سمجھا جا رہا ہے۔

نور ولی محسود ویڈیو پیغام پر پاکستانی حکومت کی جانب سے ابھی تک رد عمل سامنے نہیں آیا، جبکہ انڈپینڈنٹ اردو نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا موقف جاننے کی کوشش کی، تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ٹی ٹی پی سپریمو کے حالیہ بیان پر خیبر پختونخوا حکومت کا موقف جاننے کی بھی کوشش کی، اور حکومت کے ترجمان محمد علی سیف سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر صوبائی حکومت جواب کے لیے موزوں فریق نہیں۔

علما کا فتوی

پشاور سے تعلق رکھنے والے محمد زاہد خان نامی شخص نے پاکستانی علما سے جہاد، ملکی حفاظت پر مامور پولیس و فوجی اہلکاروں کی اموات، ریاستی دفاع، جمہوریت، ریاست کے اندر فتنہ فساد، شریعت میں داڑھی کی حیثیت، اور مغربی لباس زیب تن کرنے کے حوالے سے ان کی رائے مانگی تھی۔

ان سوالوں کے جواب میں شیخ الحدیث مولانا قاری احسان الحق (دارالعلوم سرحد پشاور)، مولانا سلمان الحق حقانی (جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)، مولانا رحمت القادری (صوبائی ناظم اعلی تنظیم المدارس)، مفتی مختار اللہ حقانی (دارالفتا، جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)، مولاناطیب قریشی (چیف خطیب خیبرپختونخوا)، مفتی خالد عثمانی (جامعہ عثمانیہ کوہاٹ)، اور مولانا عبدالکریم (علما کونسل خیبرپختونخوا) سمیت 16 علما کرام نے ایک فتوی جاری کرکے یہ واضح کیا کہ ’پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اور اس کی سلامتی و حفاظت کے لیے دشمن کے ساتھ مقابلے میں جو فوجی و پولیس اہلکار قتل ہو جائیں، وہ شہید ہیں، اور ان کی شہادت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔‘

علمائے کرام نے واضح کیا کہ اسلامی ریاست میں بسنے وا لی رعایا پر لازم ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے امیر کی اطاعت کرے۔ ’اسلامی تعلیمات کی رو سے امیر کی اطاعت سب پر لازم اور ضروری ہے۔ اس کے خلاف خروج بغاوت ہے۔‘

فتوے میں واضح کیا گیا کہ کسی مسلمان حکومت کے خلاف کارروائیاں کرنا بدترین گناہ ہے۔

ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود نے پاکستانی علما سےویڈیو میں سوال کیا تھا کہ دلائل کی روشنی میں انہیں بتایا جائے کہ کیا پاکستان میں جاری ان کی کارروائیاں جہاد کے زمرے میں نہیں آتیں؟

اگرچہ یہ فتوی ٹی ٹی پی کی ویڈیو کے جواب میں جاری نہیں کیا گیا، تاہم پاکستان میں کئی دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے جہاد کے نام پر جاری کارروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علما کرام نے حالیہ فتوے میں واضح کیا کہ ’اسلامی ریاست کے اندر کسی قسم کا فتنہ فساد ریاست کے خلاف  محاذ آرائی، لسانی، علاقائی، مذہبی، مسلکی اختلافات اور قومیت کے نام پر تخریب و فساد پھیلانا شریعت کی رو سے جائز نہیں، اور جو شخص ایسا کرے گا، وہ پاکستان کے دستور، قانون سے بغاوت کرے گا اور سزا کا مستحق ہے۔‘

جمہوریت کے حوالے سے علما کرام نے اپنے فتوے میں واضح کیا کہ جمہوریت جس کی بنیاد عوام کی حکمرانی ہے، اسلامی تعلیمات کی رو سے غلط ہے۔کیونکہ اسلام کی بنیاد اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ کے عقیدے پر ہے۔

تاہم اگر کوئی شخص پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قرآن وسنت کے مطابق قرار دے تو اس کو کفر یا گمراہی نہیں کہہ سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مغربی جمہوریت کا جوں کا توں قبول نہیں کرتا، لہذا مطلق جمہوریت کفر نہیں۔‘

تحریک طالبان پاکستان کے امیر نے اپنے بیان میں علمائے کرام سے اپیل کی تھی کہ اگر کسی مجبوری کے تحت وہ ان کی رہنمائی نہیں کر سکتے، تو ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے عناصر کو دہشتگرد اور گمراہ جیسے ناموں سے نہ پکارا جائے۔

نور ولی محسود نے یہ بھی کہا تھا: ’ہم اپنے حق میں آپ کی خاموشی کو اپنے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کے مترادف سمجھیں گے۔‘

علما کی جانب سے فتویٰ جاری کیے جانے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا، لیکن ماضی میں اس تنظیم نے ہر اس دینی عالم کو نشانہ بنایا، جس نے ان کے طرز اسلام کے مخالف کوئی بیان دیا ہو، یا ان کی کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہو۔

70 کی دہائی میں افغانستان پر روس کے قبضے کے بعد سے پاکستان شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار رہا ہے، اور سال 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد دنیا کے مختلف انتہا پسند گروہوں نے اس خطے کا رخ کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی مذہبی انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی۔

اس میں شدت سال 2007 میں عسکریت پسند تنظیموں کا ٹی ٹی پی کے نام پر اکھٹا ہونے اور بعد میں داعش خراسان کا وجود میں آنے کی صورت میں آئی۔

عسکریت پسند کارروائیوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی واقعات پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور پاکستان میں سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز پاکستان (سی آر ایس ایس) کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے 506 واقعات ہوئے، جن سے 1714 افراد متاثر ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹی پی اور حکومتی معاہدہ

نور ولی محسود نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ افغانستان کے امارات اسلامی یا افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستانی حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان ایک سال تک مذاکرات جاری رہے۔

’اس وقت سے ہم جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہیں، لیکن پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہم نے اپنے مجاہدین کو جوابی و انتقامی حملے کرنے کی اجازت دی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا کے ترجمان اور وزیر اطلاعات  محمد علی سیف نےکہا کہ ٹی ٹی پی کی تازہ ویڈیو  ماضی کے بیانات کی ایک کڑی ہے، جن میں وہ ہمیشہ اسی قسم کے بیانات پہلے بھی جاری کر چکے ہیں۔

تاہم محمد علی سیف نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی پر دباؤ ہے،جہاں پہلے وہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کیے ہوئے تھے اور موجودہ وقت میں دفاعی پوزیشن پر چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اگر آپ دیکھیں کہ حالیہ جتنے بھی حملے انہوں نے کیے ہیں وہ تمام معمولی نوعیت کے تھے، جس کا مطلب ہے کہ اب وہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں، جبکہ اب ان کے پاس وہ موافق حالات نہیں کہ زیادہ موثر کارروائیاں کر سکیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا خیبر پختونخوا میں حالات دوبارہ 2007-08 کی طرح رخ اختیار کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تب علاقائی حالات اور ٹی ٹی پی کی قیادت، ٹی ٹی پی کی صفوں میں دہشتگردوں کی موجودگی الگ نوعیت کی تھی، جبکہ اب وہ حالات نہیں رہے ہیں۔

’کالعدم تنظیم اب علما کرام کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا چاہتی ہے۔‘

مئی 2022 میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغانستان میں جاری مذاکرات کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں، جن کا جون 2022 میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خالد خراسانی اور بعدازاں حکومت پاکستان نے اعتراف کیا تھا۔

نومبر 2022 میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی سکیورٹی اداروں پر امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانے کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرنے کا اعلان بھی کیا، اور اپنے جنگجوؤں کو پورے ملک میں کارروائیاں کرنے کا حکم دیا۔

رواں مہینے قومی سلامتی کمیٹی (نیشنل سیکیورٹی کمیٹی) کے دوسرے اجلاس نے دہشت گردی کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران 4 جنوری 2023 کو ٹی ٹی پی نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف کارروائیوں پر غور کرنے کا انکشاف کیا۔

ٹی ٹی پی کے امیر کے حالیہ پیغام کا تجزیہ کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق چیئر مین پروفیسر سرفراز خان کا کہنا تھا: ’یہ پیغام واضح کرتا ہے کہ طالبان پاکستان میں لڑائی پھیلانا چاہتے ہیں، اور ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔

’میں اگلے کچھ دنوں میں دہشت گردی مزید بڑھتی دیکھ رہا ہوں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ان ہی دہشتگردوں کے آلہ کار کچھ ہمارے اداروں اور سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں۔ اگر تمام سٹیک ہولڈرز نے بر وقت ان عناصر کے خلاف ایکشن نہیں لیا تو حالات بہت بگڑ جائیں گے۔‘

پروفیسر سرفراز نے کہا کہ دہشت گردی سے متعلق عام شہریوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے، اور ملک کے بعض حصوں سے لوگ امن کا مطالبہ کرنے کے لیے نکل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ پہلے جیسے حالات نہیں چاہتے نہ ہی دوبارہ اپنے علاقوں کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے پر راضی ہیں، اور نہ ہی وہ دوبارہ بے گھر ہونے کے لیے تیار ہیں۔

گزشتہ دنوں باجوڑ اور پھر وزیرستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پاکستان اور خصوصاً صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف مظاہرہ کیا۔

پروفیسر سرفراز خان کے خیال میں پاکستان کے سکیورٹی ادارے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ایک ہی جماعت ہونے سے انکاری ہیں۔

’ٹی ٹی پی افغان طالبان ہی کی ایک شاخ ہے۔ افغان طالبان افغانستان میں آئین نہیں مانتے اور ٹی ٹی پی پاکستانی آئین اور دوسرے قوانین کو نہیں مانتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہاں بسنے والے کروڑوں مسلمان ان کے نزدیک کفار اور گمراہ ہیں، لہذا ان کے خلاف جہاد واجب ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان