ایل سی کیا ہے اور اس کی بندش کیسے بحران کا باعث بن رہی ہے؟

پاکستان میں ڈالر کی شدید قلت کے بعد بینکوں کی جانب سے درآمدات کے لیے اہم دستاویز لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی کا اجرا بند کر دینے سے ملک میں ایک نے معاشی بحران نے جنم لے لیا ہے۔

19 جولائی 2022 کی اس تصویر میں ایک کرنسی ڈیلر کراچی میں امریکی ڈالر کے نوٹ گن رہا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں ڈالر کی شدید قلت کے بعد بینکوں کی جانب سے درآمدات کے لیے اہم دستاویز ’لیٹر آف کریڈٹ‘ یا ’ایل سی‘ کے اجرا کا سلسلہ بند کر دینے سے ملک میں جاری معاشی بحران کو مزید سنگین شکل دے دی ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر صرف چار اعشاریہ تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو گذشتہ نو سال کی کم ترین سطح ہے۔ جس کے باعث ملک میں درآمدات کے لیے درکار ڈالزر موجود نہیں ہیں اس لیے بینکوں نے لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنا بند کر دیا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تنویر ملک نے بتایا کہ ’ایک جانب تو بینکوں نے نئے لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنا بند کر دیے ہیں لیکن دوسری جانب پہلے سے جاری شدہ ایل سیز کے تحت جو سامان پاکستان پہنچ چکا ہے، اس کو بھی سیٹل نہیں کیا جا رہا۔ یعنی کہ ان ایل سیز کی رقوم بیرون ملک سے اشیا بھیجنے والوں کو ادا نہیں کی جا رہیں اور ادائیگی کے بغیر یہ اشیا بندرگا سے باہر نہیں آ سکتیں۔‘

’اس لیے کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینرز پھنس چکے ہیں جن کو کئی دن گزر گئے ہیں۔ ان کنٹینرز میں کھانے پینے کی اشیا، خوردنی تیل، دالیں، ادویات، صنعتوں کی مشینری، گاڑیاں کے پرزوں سمیت کئی اقسام کی اشیا شامل ہیں جو بندرگاہ پہنچ چکی ہیں لیکن ایل سی کے تحت ان کی ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس لیے ان اشیا کو بندرگاہ سے چھوڑا نہیں جا رہا۔‘

تنویر ملک کے مطابق: ’حکومت پاکستان نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ بینکوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ ہر صورت میں خوردنی تیل، دالیں، گندم اور کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات کے لیے ایل سیز کی سیٹلمنٹ اور اجرا میں تاخیر نہ کریں تاکہ خوراک کا بحران نہ پیدا ہو۔ اس کے علاوہ کروڈ آئل، پیٹرول کے لیے بھی پالیسی نرم کی جائے۔‘

تنویر ملک کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے سٹیٹ بینک کو ہدایت تو کر دی ہے مگر اس پر عمل ہونے میں وقت لگ جائے گا۔ ایل سی کا اجرا رکنے کے باعث پہلے ہی ملک میں معاشی بحران جنم لے چکا ہے۔‘

 دوسری جانب ترجمان سٹیٹ بینک آف پاکستان عابد قمر نے کہا کہ ’مرکزی بینک کی جانب سے ایل سیز کے اجرا پر کوئی پالسی بنائی گئی ہے نہ ہی بینکوں کو ایل سی نہ جاری کرنے کی کوئی ہدایت کی ہے۔‘

 لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی ہے کیا؟

 لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی درآمد میں استعمال ہونے والا انتہائی اہم دستاویز ہے جو بینک جاری کرتا ہے۔

جب بھی کوئی فرد یا کمپنی بیرون ملک سے کوئی اشیا درآمد کرنا چاہتی ہے تو اسے بیرون ملک سے اشیا پاکستان بھیجنے والی کمپنی ان اشیا کی ادائیگی کی ضمانت مانگتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ سامان بھیج دیں اور یہاں سے اس کی ادائیگی نہ ہو۔

اس لیے پاکستان میں موجود اس فرد یا کمپنی کو بینک کی جانب سے ایل سی یا لیٹر آف کریڈٹ دیا جاتا ہے کیوں کہ عالمی طور پر کسی بھی ملک سے کوئی بھی سامان خریدنے کے لیے قابل قبول کرنسی امریکی ڈالر ہے۔ اس لیے مقامی بینک درآمد ہونے والے سامان یا اشیا کی ڈالر میں قیمت کے برابر پاکستانی روپے لے کر اس قیمت کا کچھ فیصد حصہ سروس چارجز کے طور پر لینے کے بعد ایل سی جاری کرتے ہیں۔

عالمی قوانین کے تحت یہ بینک کی جانب سے بیرون ملک سے سامان بھیجنے والے فرد یا کمپنی کو بینک کی گارنٹی ہوتی ہے کہ پاکستان میں درآمد کرنے والے افراد یا کمپنی سامان کی ادائیگی کریں یا نہیں مگر بینک آپ کو اس سامان کی ادائیگی کرے گا۔

بیرون ملک کمپنی رقم کی ادائیگی پر بینک کے جانب سے گارنٹی یا ایل سی کو دیکھنے کے بعد ہی آرڈر کی گئی اشیا روانہ کرتی ہے۔

 ایل سی کی تاریخ

ٹریڈ فنانشل گلوبل نامی تنظیم کے مطابق لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی کے اجرا کا آغاز سترویں صدی میں عالمی کاروبار میں اضافے کے بعد اٹھارویں صدی کے آغاز سے یورپ میں شروع ہوا۔

 ابتدا میں ایل سی مختلف ممالک کے اپنے قوانین کے باعث صرف یورپ تک محدود تھی۔

1933 میں انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس (آئی سی سی) کی جانب سے پہلی بار یونی فارم کسٹم اینڈ پریکٹس فار ڈاکیومینٹری کریڈٹس یا ’یو سی پی 82‘ کے نام سے ایک نظام متعارف کرایا گیا جس سے پہلی بار عالمی کاروبار کے قواعد و ضوابط کا آغاز ہوا۔

یو سی پی نظام کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نظام نے عالمی کاروباروں کے درمیاں اعتماد پیدا کرنے، دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ٹائم زونز اور معاشی قوانین کے فقدان کے باوجود معاشی اور سرحدی حدود کے تنازعات کو حل کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔

19ویں اور 20ویں صدی کے دوران ایل سی کی مدد سے بغیر کسی تنازعے کے رقوم کی ادائیگی کا نظام مزید مقبول ہوا۔

’یو سی پی 82‘ کے اس نظام پر سال 1933 سے 1993 کے درمیاں پانچ بار نظر ثانی کی گئی جس کے بعد 2007 میں اس پرمزید نظرثانی کرنے کے بعد اسے ’یوسی پی600‘کا نام دیا گیا جو تاحال جاری ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس ارکان کا احتجاج:

جمعرات کو گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد کے کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے دوران چیمبر کے ارکان نے سٹیٹ بینک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

 گورنر سٹیٹ بینک سے میٹنگ کے دوران چیئرمین ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) زبیر موتی والا نے کہا کہ ’بینکوں کی جانب سے ایل سی کے اجرا میں تاخیر کے باعث صعنتی سرگرمیوں میں 25 سے 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق چیئرمین اے کیو خلیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایل سی کے اجرا کے بعد امپورٹ بند ہونے اور کاروبار پر منفی اثرات ہونے کے باجود ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کو گذشتہ ٹیکس کے حساب سے جاری رکھا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے علامتی طور پر کراچی چیمبر آج کامرس کی باکس میں بند چابیاں گورنر سٹیٹ بینک کو دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ ہی چیمبر سنبھالیں۔‘  

بعد میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر طارق یوسف نے گورنر سٹیٹ بینک سے علامتی احتجاج پر معذرت بھی کی۔  

کراچی بندرگاہ پر کتنے کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں؟ 

چیئرمین ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) زبیر موتی والا کے مطابق ’ایل سی کے اجرا میں تاخیر کے باعث مختلف ممالک سے پاکستان آنے والی اشیا کے 6000 کنٹینر کراچی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔‘  

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز اور امپورٹرز مرچنٹ ایسوسی ایشن کے عہدیدار وحید احمد کے مطابق ’کراچی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے کنٹینرز میں 250 کنٹینر پیاز کے ہیں، جس کی قیمت تقریباً بیس لاکھ ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً سوا آٹھ ہزار ڈالر کی قیمت کے 63 کنٹینر ادرک اور 25 لاکھ ڈالر کے 104 کنٹینر لسن کے شامل ہیں۔‘  

’اس کے علاوہ چھ لاکھ میٹرک ٹن سویابین تیل کے کنٹینرز بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ‘

بندرگاہ پر پھنسی دیگر اشیا بشمول ادویات، گاڑیوں کے پرزاجات اور دیگر اشیا کے کنٹینرز کی تعداد جاننے کے لیے جب کراچی چیمبر آف کامرس کے نائب صدر محمد حارث اگر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’ہم نے اپنے تمام ارکان کو فارمز دیے ہیں کہ وہ ہمیں تفصیل دیں کہ کون سی اشیا کے کتنی مالیت اور کتنے کنٹینرز ہیں جو بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ارکان نے تفصیلات دینا شروع  کر دی ہیں۔ مفصل رپورٹ پیر تک ملے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت