قانون ساز اسمبلی کی عمارت ملک کی اہم سرکاری عمارت ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے اہم ملکی فیصلوں سمیت اہم بل پاس کرتے ہیں جو قانون کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تاہم کیا پارلیمنٹ کو نقصان پہنچنے کی صورت میں اس عمارت کا کوئی متبادل موجود ہے جہاں حکومتی سرگرمیاں جاری رہ سکیں؟
یہ سوال اُس وقت اُبھرے جب اتوار کی شام اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ کی عمارت کی برقی تاروں میں چنگاریاں نظر آئیں جس کے بعد شارٹ سرکٹ اور آتشزدگی خدشے کے باعث پارلیمنٹ کے تمام دفاتر تین دن کے لیے بند کر دیے گئے۔
واقعے پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے صورتِ حال کا فوری نوٹس لیا اور متعلقہ سیکریٹریزکو مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے عمارت فوری طور پر سیل کر کے وائرنگ کو محفوظ بنانے کی ہدایت کی۔
پیر کے روز شام چار بجے سینیٹ کا اجلاس تھا جو شارٹ سرکٹ کے خدشے کے تحت تین دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ پیر سے بدھ تک پارلیمنٹ کی عمارت میں ہونے والے تمام کمیٹیوں کے اجلاس بھی ملتوی کیے گئے جبکہ عملے کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت دی گئی۔
معاملے پر ترجمان قومی اسمبلی ظفر سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارلیمنٹ کی سکیورٹی کے چار کیمروں نے اچانک کام کرنا بند کر دیا جب وجوہات جاننے کے لیے چیک کیا تو پتہ چلا تاریں کتری ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’پارلیمنٹ کی عمارت میں کافی موٹے چوہے موجود ہیں جو یہ حرکت کر دیتے ہیں۔ لیکن 90 فیصد کام ٹھیک کر دیا ہے باقی کا کل اور پرسوں ہو جائے گا۔ کتری ہوئی تاروں سے شارٹ سرکٹ کا بھی خدشہ تھا اس لیے فوری سد باب ضروری تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُن سے جب سوال کیا کہ پارلیمنٹ کی عمارت کتنی مخفوظ ہے حادثہ ہونے کی صورت میں کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ ظفر سلطان نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے ہر کمرے میں فائر الارم لگا ہے اور آگ بجھانے والا سپرے بھی ہر کمرے میں موجود ہے۔
’ایمرجنسی کی صورت میں یہ استعمال ہو سکتا ہے۔ سیڑھیوں سے عقبی اور سامنے والے دونوں دروازوں سے ایمرجنسی ایگزٹ ممکن ہے۔‘
ترجمان قومی اسمبلی سے جب سوال کیا گیا کہ اگر کسی واقعے کے باعث پارلیمنٹ کی عمارت قابل استعمال نہ رہے تو حکومت کے پاس متبادل کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ’نادرا کے قریب موجود سٹیٹ بینک کی پرانی عمارت جو کہ خالی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کا متبادل ہے کیونکہ 1993 میں بھی جب ایوان میں آگ لگ گئی تھی تو تب اجلاس کا انعقاد بھی وہاں ہوا تھا اور دفاتر نے کام بھی وہاں سے کیا تھا۔ اس لیے ہمارے پاس متبادل میسر ہے۔‘
ظفر سلطان نے مزید بتایا کہ ’کمیٹی اجلاسوں کے لیے پپس کا ہال بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ متعلقہ وزارت کی کمیٹی وزارت کی عمارت میں بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ انفارمیشن کی کمیٹی کا اجلاس اکثر پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں بھی ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ کی کمیٹی اکثر دفتر خارجہ میں ہوتی ہے داخلہ کی کمیٹی نادرا کے ہیڈ کوارٹر میں بھی ہوتی ہے۔‘
ماضی کی آگ
نومبر 1993 میں اسی خالی پارلیمنٹ کی عمارت میں آگ بھڑک اٹھی، جس نے مرکزی ہال کو تباہ کر دیا تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر یوسف گیلانی نے بتایا تھا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے تین فائر فائٹرز زخمی ہوئے۔
اس وقت بھی لگی آگ کی شدت اتنی تیز تھی کہ اس پر تین گھنٹے بعد بھی قابو نہیں پایا جاسکا تھا۔
سرکاری ٹیلی ویژن نے اس وقت خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آگ لگنے کی وجہ بجلی کا شارٹ سرکٹ ہے، جو بظاہر اسمبلی فلور کے اوپر پریس گیلری میں لگی۔
لیکن جائے وقوعہ پر موجود سینیٹر اقبال حیدر نے کہا تھا کہ آتش زنی اور دیگر وجوہات کو مسترد نہیں کیا جانا چاہیے۔
خوش قسمتی سے اس دن بھی پاکستان میں چھٹی تھی اور پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں تھا۔ اس عمارت کی تعمیر نو پر بعد میں بھاری خرچہ آیا تھا۔