پاکستانی اپنے پڑوسیوں سے ناواقف اور لاتعلق

ٹوہ لینے کی عادت اچھی نہیں سمجھی جاتی مگر اپنے پڑوس کی سُن گُن رکھنا ضروری ہے، ہماری ذاتی سکیورٹی کے لیے، اور اپنی کمیونٹی کے لیے بھی۔

لوگ یکم فروری، 2023 کو کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں خریداری کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پڑوس میں کون رہ رہا ہے، نیا کون آیا، کون گیا، کیا پڑوس میں کوئی جھگڑا چل رہا ہےجو اس قدر شور ہے۔ آج ساتھ والے گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہے؟ یہ پرانے وقتوں کے وہ سوال تھے جو گھر میں بغیر کسی خاص مقصد کے بس ویسے ہی پوچھ لیے جاتے تھے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

پڑوس میں کھانا بھیجنا تو چلیں مہنگائی کی نذر ہو گیا لیکن عید کے تہوار پہ پڑوسیوں کے گھر حلوہ، کھیر یا گوشت بھیجنے کی روایت بھی لگ بھگ دم توڑ رہی ہے۔ اس ایک پلیٹ کے لین دین میں بڑی حکمت چھپی ہوتی تھی۔

ہماری ایک عزیز تو پڑوس میں ہونے والی غیر معمولی ٹھونک پٹخ کو بھی بڑی سنجیدگی سے سنتی تھیں اور جی میں آتا تو نمک، چینی، یا ماچس لینے کے بہانے پڑوس میں ایک چکر لگا آتی تھیں کہ خیر خبر مل جائے۔

ٹوہ لینے کی عادت اچھی نہیں سمجھی جاتی مگر اپنے پڑوس کی سُن گُن رکھنا ہر طرح سے ضروری ہے، ہماری ذاتی سکیورٹی کے لیے، اور اپنی کمیونٹی کے لیے بھی۔

مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی تھی کہ سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال اندرون لاہور کے جس محلے میں ایک عرصے تک بچوں کو اغوا کرکے لاتا رہا پڑوسیوں کو اس کی رتی برابر خبر نہیں تھی۔

کچھ ایسی ہی لاتعلقی اسلام آباد کی نور مقدم کے معاملے میں محسوس ہوئی تھی۔

اس گز بھر کی تمہید سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم اپنے خطے میں اپنے ملک کے پڑوسیوں سے اتنے ہی لاعلم ہیں جتنا کہ کراچی کے اس اپارٹمنٹ کے محلے دار تھے جہاں دو کمرے کے فلیٹ میں نفسیاتی مسائل کا شکار بھائی بہن نے 10 سال تک اپنی ماں کی لاش گھر کے فریزر میں رکھی۔

یہ اس دوران اپنے گھر کا کچرا گھر میں ہی اکٹھا کرتے رہے یہاں تک کے دو کمرے کا فلیٹ مکمل بھر گیا، راز تب کھلا جب بھائی کا انتقال ہوا اور دیگر رشتے داروں نے گھر کا جائزہ لیا۔

ہمارے ساتھ والے ملکوں میں کیا ہنگامہ برپا ہے، کس کی حکومت ہے، کون نیا آ رہا ہے، کون چلا گیا، کون سے فتنے پل ہے ہیں، خوش حالی کے نغمے کون گا رہا ہے، وہ لوگ کھاتے پیتے کیا ہیں، انہیں کس چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ اور اس جیسے اور کئی سوال براہ راست ہم سے اور ہماری زندگیوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ہم لاتعلق ہیں۔

جیسے ایک شعوری کوشش کے ذریعے پاکستان کے خارجی تعلقات کو ملکی سیکورٹی اور سالمیت سے جوڑ کر اسے حساس دفاعی معاملہ بنا دیا گیا اور اسے جمہوری و سیاسی ڈومین بالکل الگ کر دیا گیا ایسے ہی ایک شعوری کوشش کے ذریعے پاکستانیوں کو اپنے خطے، اپنے پڑوسیوں اور اپنی خارجہ پالیسی جیسے معاملات سے لاتعلق رکھا گیا۔

پاکستان کی علاقائی اور عالمی خارجہ پالیسی جیسا خشک مضمون ہم نے ایک دو ریاستی اداروں پہ چھوڑ رکھا ہے۔

ان اداروں کا جو دل چاہے وہ کریں، جس سے چاہے سینگ پھنسا لیں جسے چاہے دوست بنا لیں، عوام کی دلچسپی نہیں۔

اسی لیے ہماری سیاسی جماعتیں بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی، بالخصوص پڑوسیوں سے تعلقات پر کوئی واضح سیاسی نظریہ نہیں رکھتیں، پاکستان کے الیکشن میں خارجہ پالیسی پہ سیاسی جماعتوں کا منشور خاموش نظر آتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ہماری عمومی رائے یہ ہے کہ ہم خود اپنے اندر ہی اتنے الجھے ہیں کہ ایران میں کیا دھماچوکڑی مچی ہے یہ جاننے کا وقت نہیں، فرض کریں یہ جان بھی لیں کہ صدر شی جین پینگ نے چین میں کون سی نئی اقتصادی پالیسی کا اطلاق کیا ہے، تو اس معلومات سے ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر کیا کر لیں گے۔

افغانستان سے کروڑوں پاکستانیوں کا تعارف بس اتنا ہے کہ مہاجر بستی میں رہتا ’افغانی‘ نکڑ پہ بیٹھا موچی، کوٹھیوں میں چلتے منشیات، اسلحے اور سمگلنگ کے بڑے کارٹیل، محنت کش دیہاڑی دار، نان بائی، چائے کے سادہ ہوٹل اور مہنگے قالینوں کے کاروبار انہی کے ہیں۔

یہ سوچنا ہمارا کام نہیں کہ گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان میں آباد غریب الوطن افغان مہاجرین کراچی کی افغان بستی تک بھلا کیسے پہنچے، ہماری افغانستان پالیسی میں ایسا کیا تھا کہ افغان ہمارا نام سنتے ہیں سلگ جاتے ہیں۔

انڈیا سے تعلقات کی بات تو خیر سے مقدس گائے والا معاملہ ہے جو بولے وہ پھنسے ورنہ انڈیا سے تعلق اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری ضرورت بنتا جا رہا ہے۔

 رہ گیا چین تو یہ تعلق دو ہمسائیوں سے زیادہ سرمایہ کاری کے گرد گھومتا ہے، چین سے ہمارے اقتصادی تعلق کے بعد نمبر آتا ہے دفاعی پراجیکٹس کا اور تیسرے نمبر پر تعلیمی ایکسچنج پروگرام ہیں۔

لیکن عوامی سطح پہ چین کے حوالے سے معلومات، آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، بس اتنا علم ہے کہ سدا بہار دوست ہیں، اور ہمیں قرض وغیرہ مل جاتا ہے۔

میری دانست میں اس لاتعلقی کا پہلا علاج یہ ہے کہ پاکستان کے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری نصاب میں پاکستان کے علاقائی تعلق، پڑوسی ممالک کے حوالے سے ایک باقاعدہ علیحدہ اور لازمی مضمون ہونا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کا علاقائی اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی کے معاملات میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنا بھی بند ہو تو کچھ بات بنے۔

تیسرا کچھ ہم میڈیا والوں کو بھی اپنے عدسے کے ڈائیمنشن کو بڑھانا ہو گا ورنہ اب تک جو ہو رہا ہے آگے بھی وہی ہوتا رہے گا یعنی ساتھ والے گھر میں سلگتی چنگاری سے لاتعلق رہیں گے یا ہوا دیں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شعلے اپنے گھر بھی لپک سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر