امیر بھی لائن میں لگ گئے

قطاروں میں ہمیشہ سے فرق رہا اور رہے گا بھی، زندہ رہنے کے لیے لائن اور لطف اندوز کرنے والی اشیا کے حصول کے لیے لائن برابر کیسے ہو سکتی ہے؟

لاہور میں غیر ملکی برانڈ کی کافی شاپ کے باہر خریداروں کی قطاریں (انڈپینڈنٹ اردو)

 پاکستان اور اس کے باسیوں کی معاشی مشکلات کا چرچا نہ صرف اندرون ملک ہے بلکہ دنیا کو بھی یہی باور کروایا جا رہا ہے کہ یہاں لوگ بہت مشکل میں ہیں اور سچ بھی یہی ہے۔

 مہنگائی کی شرح گذشتہ تین دہائیوں کے مقابلے میں سب سے بلند، زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر اور ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط کو مانتے ہوئے حکومت کا مزید 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا اعلان، یہ ہیں زمینی حقائق۔

 ایسی صورت حال میں مہنگائی میں پسے افراد آٹے کے حصول کے لیے قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں یا پھر بنیادی ضروریات کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

 لیکن حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں مالی طور پر آسودہ افراد خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ وہ بھی قطار میں لگ گئے ہیں۔  لیکن یہ قطار راشن حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ من کی پیاس بجھانے کے لیے ’کافی‘ کے حصول کے لیے تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لاہور میں گذشتہ ہفتے کینیڈین کافی شاپ ’ٹم ہارٹنز‘ کا افتتاح ہوا جہاں کافی کے دلدادہ مرد و خواتین  نہ صرف امڈ آئے بلکہ بےمثال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کافی دیر تک کافی کے انتظار میں کھڑے رہے۔

 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے تمام ہی طبقے قطار میں لگ سکتے ہیں، کچھ آٹے اور بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے، کچھ کافی یا اپنی کسی اور ضرورت کے لیے۔ اگر وہ اندرون ملک لائن میں نہیں لگتے تو بیرون ملک ایسا کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

 لیکن قطاروں میں ہمیشہ سے فرق رہا اور رہے گا بھی، زندہ رہنے کے لیے لائن اور لطف اندوز کرنے والی اشیا کے حصول کے لیے لائن برابر کیسے ہو سکتی ہے؟

 نہ تو کافی خریدنا کوئی جرم ہے اور نہ ہی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنا لیکن قدرے آسودہ لوگوں کی لائن سے فرق ظاہر ضرور ہوا ہے کہ ملک کے معاشی حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، سب پر اس کا اثر نہیں پڑتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ