چھوٹے بچے فطری طور پر لوگوں کی مدد کرنے پر مائل رہتے ہیں: تحقیق

نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ چھوٹے بچے ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کی طرف مائل رہتے ہیں تاہم خود کی قیمت پر ان میں ہمدردانہ ردعمل کم ہو جاتا ہے۔

16 فروری کی اس تصویر میں انڈونیشیا کے لمپناہ ساحل پر پھنسے ہوئے تقریباً پچاس روہینگیا مسلمانوں میں سے ایک بچہ اپنے گھر کا سامان اٹھائے ہوئے ہے (اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ چھوٹے بچے فطری طور پر دوسروں کی مدد کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں تاہم وہ ایک موقع پر اس ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

محققین نے اپنے مطالعے کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ جب خود کی قیمت پر ہو تو بچے اپنے ہمدردانہ ردعمل کو کم کر دیتے ہیں۔

بدھ کو سائنسی جریدے ’رائل سوسائٹی اوپن سائنس‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں چار اور پانچ سال کی عمر کے 280 سے زیادہ بچوں میں دوسروں کی مدد کے لیے پائی جانے والی فطرت کا جائزہ لیا گیا۔

آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی سے وابستہ جیمز کربی سمیت سائنس دانوں نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے تجربات کیے کہ کون سے عوامل نے ان میں ہمدردانہ رویے پر اکسایا اور کون سے عوامل نے ان کو اس سے باز رکھا؟

ہمدردی ایک وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جانے والا انسانی رویہ ہے جو دوسروں کی مدد اور انہیں آرام پہنچانے کے جذبے سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔

تاہم یہ رویہ ایک پیچیدہ محرک اور اپنی ذاتی مشکلات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے حساسیت کے ساتھ بھی جڑا ہے، یعنی یہ پریشانی کو کم کرنے یا روکنے کے عزم کے ساتھ آتا ہے۔

پچھلے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں میں، جب بھی ہو سکے، شفقت کا مظاہرہ کرنے کا فطری رجحان پایا جاتا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کن حالات میں دوسروں کی مدد کرنا چھوڑ سکتے ہیں۔

نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ جانچنے کی کوشش کی کہ کون سے عوامل چھوٹے بچوں میں زیادہ ہمدردانہ رویے کو بڑھا سکتے ہیں اور کن حالات کی وجہ سے وہ دوسروں کے لیے کم مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس تحقیق میں محققین نے بچوں سے پزل گیم کھیلنے کو کہا جس کے مکمل ہونے پر انہیں انعام کے طور پر ایک سٹیکر ملا۔

گیم سے متعارف ہونے سے پہلے بچوں نے بڑے سیکشن سے اپنے تین پسندیدہ سٹیکرز چنے۔

وہ بڑے افراد یا ملی دا منکی، ایلی دی ایلیفینٹ اور جارج دا جراف جیسی کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھیلے جن کے پاس یہ ٹاسک پورا کرنے کے لیے کافی ٹکڑے نہیں تھے۔ بچے سٹیکرز حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد تین مختلف طریقوں سے واضح طور پر پریشان ہوئے۔

سائنس دانوں نے تحقیق میں اس رویے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے بچوں کو دوسروں کی مدد کرنے کے تین مواقع ملے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کٹھ پتلی کی جانب سے پریشانی ظاہر کرنے کے بعد بچے نے ان کی مدد کی تو اسے ہمدردانہ رویے کے طور پر دیکھا گیا۔‘

ٹاسک یا تو اس وقت ختم ہوا جب بچے نے مدد کی یا اس وقت جب تین (پریشانی کے) اشاروں کے بعد بھی بچے نے مدد نہ کی۔

محققین نے پایا کہ بچوں نے تمام مطالعات میں اس وقت مدد کی جب بھی ان کے پاس پزل کے اضافی پیسز موجود تھے۔

لیکن جب ان کے پاس خود پزل کو مکمل کرنے کے لیے کافی ٹکڑے نہیں تھے تو انہوں نے دوسروں کی مدد نہیں کی۔

محققین نے اس کی وضاحت کچھ یوں کی کہ ’ہمیں اس بات کے مضبوط ثبوت ملے ہیں کہ خود کی قیمت پر بچوں میں ہمدردانہ ردعمل کم ہو جاتا ہے۔‘

سائنس دانوں نے یہ بھی پایا کہ ہمدردی حاصل کرنے سے بچوں کے رویے پر کوئی اثر نہیں پڑا کیوںکہ ان میں ایک بڑے آدمی اور ایک کٹھ پتلی کی مدد کرنے کا یکساں امکان موجود تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جن بچوں کی عمریں چار اور پانچ سال ہیں ان میں خود کی قیمت پر ہمدردی کے ردعمل کو کم کرنے کا زیادہ امکان ہے اس کے مقابلے میں کہ ہمدردی کا اظہار کس کے لیے کیا جانا ہے۔

محققین نے یہ سمجھنے کے لیے مطالعہ کے حالات کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ کون سے عوامل بچوں میں پزل اور اپنے انعام والے سٹیکر کو چھوڑنے کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔

انہوں نے یہی ٹاسک ایک الگ تجربے میں بچوں کو بتا کر کیا کہ وہ اپنے پزل پیسز کو شیئر کر سکتے ہیں اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کٹھ پتلی یا بڑے افراد کے ساتھ ایک ہی ٹیم میں ہیں۔ تاہم محققین نے بتایا کہ انہیں اس میں بھی کامیابی نہیں ملی۔

محققین نے مزید کہا: ’یہ ممکن ہے کہ بچوں نے مشترکہ باسکٹ میں دستیاب وسائل کی 'محدود' مقدار کو دیکھا اور محسوس کیا کہ انہیں کٹھ پتلی سے پہلے ضروری پیسز حاصل کرنا ہوں گے۔‘

تمام تجربات کے نتائج بتاتے ہیں کہ خود کی قیمت بچوں میں ہمدردی کے جذبے کے لیے ایک اہم رکاوٹ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قیمت کو کم کرنے سے ہمدردی کے جذبے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ نتائج چھوٹے بچوں میں ہمدردانہ رویے کو بڑھانے بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق