سپریم کورٹ: صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ آج

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد آج فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔

سپریم کورٹ کی عمارت کا ایک منظر( اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں منگل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد آج (بدھ کو) صبح 11 بجے سنائے جانے کا اعلان ہوا ہے۔

گذشتہ روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’90 روز میں الیکشن کروانا آئین کی روح ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

کل چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا ’جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب جج دستحط کریں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔‘

 عابد زبیری نے جواب دیا کہ ’وہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ وکیل ہیں۔‘

عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’سپریم کورٹ ماضی میں 90 روز میں ہی انتخابات ہونا قرار دے چکی ہے۔ گورنر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے۔‘

’اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’اگر نگران وزیر اعلی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے۔‘

اس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ’90 روز کا وقت اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘

عابد زبیری نے کہا ’الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیتے ہوئے کہا ’الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلی کا نہیں۔‘

عابد زبیری نے دوسرے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا۔‘

جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’آرٹیکل 48 کے مطابق صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ حکومت یاسابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟‘

عابد زبیری نے کہا ’آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں‘ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا ’نگران حکومت تو سات روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔‘

 وکیل نے کہا ’آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد کی ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہو سکتی ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے‘ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نےکہا ’اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آ جائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے؟ ‘

عابد زبیری نے کہا ’پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی جس کا اختیار روز مرہ کے امور چلانا ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’صدر اور گورنر کے معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں۔‘ کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’نگران حکومت کے تقرر اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔‘

’آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا‘

چیف جسٹس نے اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے متعلق استفسار کیا جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ ’پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے۔‘

 جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا ’نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟ کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی؟‘

عابد زبیری نے جواب دیا کہ ’نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔‘

 وکیل عابد زبیری نے کہا ’تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 تین میں ہے۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔‘ جس پر عابد زبیری نے کہا ’اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 روز میں الیکشن کروانا آئین کی روح ہے۔‘

’مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا‘

عابد زبیری نے کہا کہ اگر دباو میں اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دیں گے۔ ’میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ’اگر الیکشن کمیشن انتخابات کروانے سے معذوری ظاہر کرے، کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟‘

 جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ ’گورنر ہر صورت میں تاریخ دینے کے پابند ہیں۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں، گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مد نظر رکھ کر تاریخ دے گا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟‘

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’صدر کے اختیارات آئین میں واضح ہیں، صدر ہر کام کے لیے ایڈوائس کا پابند ہے۔‘

عابد زبیری نے کہا کہ ’صدر مملکت ہر کام کے لیے ایڈوائس کے پابند نہیں، صدر ہر وہ اختیار استعمال کر سکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہو۔ انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ’صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کر سکتے ہیں۔‘

 عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ ’صدرمملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا ’آئین میں کہیں مشاورت کا ذکر نہیں، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’اگر مان لیا جائے قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر بھی صدر ایڈوائس کے پابند ہیں۔‘

’صدر کی صوابدید اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے‘

عابد زبیر ی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ’گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے۔ صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں۔‘

اٹارنی جنرل شہزاد عطا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’صدر کی صوابدید اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا ’گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90 روز سے آگے لے کر نہیں جانا چاہیے۔ انتخابات 90 روز سے آگے کون لے کر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے؟‘

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا ’گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔‘

’اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟‘

چیف جسٹس نے کہا ’لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 روز کے لیے ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری اور کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا کسی نے سیکشن 57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے کہا ’انتخابی مہم کے لیے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں جبکہ 90 روز کے اندر انتخابات کے لیے مہمکا وقت کم کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن با اختیار ہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کر سکتا ہے؟‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔‘

’تاریخ مقرر کرنے کے لیے پارلیمان آج قانون بنا لے‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’پہلا سوال یہ ہے کہ تاریخ کون دے گا؟ اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔ تاریخ مقرر کرنے کے لیے پارلیمان آج قانون بنا لے۔‘

 چیف جسٹس نے کہا ’الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا ترنہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا؟‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’سیکشن 57 ون ختم کردیں تو الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔‘

 اٹارنی جنرل نے ٹھوس وجوہات کی بنا پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیے جانے کا کہا جس  پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’تاریخ کا اعلان کیے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لیا جا سکتا ہے؟‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے؟ یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہے وہیں کریں گے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’الیکشن کمیشن تین طرز کی تاریخ دے سکتا ہے جن میں سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دینا شامل ہیں۔ صرف پنجاب اور کے پی  کے الیکشن کی بات کر رہے ہیں، پہلے دن سے موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر نے کرنا ہے۔ گورنر پنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ دینے کے لیے خط لکھا۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’وزیر اعلی کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے حتی کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی عملدرآمد ہوتا ہے۔‘

 انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا ’گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کاکیا علم ہے؟ گورنر نے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا یا نہیں؟‘

’پنجاب میں گورنر سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’گورنر کی ذمہ داری ہے اسمبلی تحلیل کرے یا نہ کرے۔‘

 جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’گورنر کہتے ہیں اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیوں دیں؟‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا ان کی نظر میں گورنر کا موقف درست نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا گورنر نے مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کو بلوایا تھا؟‘

 جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’انہوں نے مشاورت کے بجائے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’الیکشن کمیشن صرف چٹھیاں نہ لکھے۔ پنجاب میں گورنر سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ گورنر خیبرپختونخواہ کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کر کے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔‘

فل کورٹ کی درخواست واپس

بعد ازاں خیبر پختونخوا کے وکیل کو روسٹرم پر بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے 31 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطلب سے متعلق استفسار کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’اسمبلی وزیر اعلی کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی، ہم نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔‘

سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔  

وکیل فاروق نائیک نے کہا ’چیف جسٹس کا بنایا گیا پانچ رکنی لارجر بنچ ہی سماعت کرے۔‘

واضح رہے ان سیاسی جماعتوں نے رواں سال 24 جنوری کو ازخود نوٹس کیس سننے والے دو ججز جسٹس اعزاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی  پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’ہم کسی ایک یا دوسری سائیڈ کو سپورٹ نہیں کر رہے بلکہ آئین کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ ہم صرف انتخابات کی تاریخ دینے کی بات کر رہے ہیں اور یہ کہ تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے۔‘

عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ’آئین کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات ہونے ہیں، اس کی خلاف ورزی ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اسمبلیاں تحلیل ہیں لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں۔‘

صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ’خیبر پختونخوا اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو انتخابات کی تاریخ صدر نے کیسے دے دی؟‘

 جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے صدر سے ملاقات کر کے انہیں یہ مشورہ دیا کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینا ان کا اختیار نہیں تھا۔

’انتخابات کی تاریخ گورنر کو دینی چاہئیے تھی۔ صدر خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صدر کے خلاف کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے تاریخ دے کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔‘

عدالت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت پر تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو آج 11 بجے سنایا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان