کراچی: دبئی سے ’لوو برڈز‘ لانے والا ملزم اجازت نامہ لینے گیا، واپس نہ آیا

اسسٹنٹ کنٹرولر پاکستان کسٹم وقار نے بتایا کہ ملزم کے پاس پرندوں کی ویکسین، وفاقی ماحولیاتی وزارت کی این او سی سمیت کوئی بھی دستاویز موجود نہیں تھی۔

ملزم شیخ محمد کلیم جعفری لکڑی کے ڈبوں میں بند 200 لوو برڈز لایا (فائل فوٹو اے ایف پی)

کراچی ایئرپورٹ پر دبئی سے آنے والی ایک پرواز میں لائے جانے والے عالمی قوانین کے تحت خطرے سے دوچار نسل کے دو سو پرندوں کو کسٹم حکام نے اپنے قبضے میں لے کر پرندے لانے والے ملزم کو 24 گھنٹوں میں اجازت نامہ لانے کی ہدایت کی جو وہاں سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آیا۔

ملزم تین روز گزرنے کے باوجود واپس نہ آیا تو کسٹم حکام نے پاکستان کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت پرندے تحویل میں لے لیے۔

اسسٹنٹ کنٹرولر پاکستان کسٹم جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ وقار نے دبئی سے غیرقانونی طور پر نایاب پرندے آنے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم کے پاس پرندوں کی ویکسین، وفاقی ماحولیاتی وزارت کی این او سی سمیت کوئی بھی دستاویز موجود نہیں تھی۔

بقول وقار: ’ملزم نے کسٹم حکام سے درخواست کی کہ این او سی کے حصول کے لیے انھیں کچھ وقت دیا جائے، جس پر کسٹم حکام نے انھیں 24 گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے ایئرپورٹ سے باہر جانے کی اجازت دی، تاہم ملزم کے واپس نہ آنے پر پرندوں کو کسٹم حکام نے قبضے میں لیا ہے۔‘ 

اس حوالے سے پاکستان کسٹم کے ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایمریٹس ایئر لائنز کی پرواز نمبر ای کے 302 کے ذریعے ملزم شیخ محمد کلیم جعفری لکڑی کے ڈبوں میں بند 200 لوو برڈز لائے۔

ملزم اتنی بڑی تعداد میں پرندوں کو کارگو کی بجائے ذاتی سامان (لگیج) میں اپنے ساتھ لایا تھا۔

وقار بتاتے ہیں کہ ’یہ تو ایئرلائین سے پوچھا جائے کہ کس قانون کے تحت ملزم کو پرندے لگیج میں لانے کی اجازت دی گئی؟۔‘

لوو برڈ، چھوٹے رنگ برنگی طوطے ہوتے ہیں، جنہیں دنیا بھر کی حکومتوں کے درمیان جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی معاہدے ’کنونشن آن انٹر نیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ سپیشیز‘ یا سائٹس تنظیم کی جانب سے ’خطرے سے دوچار پرجاتیوں‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ ان کی نسل کو شدید خطرات ہیں۔

دنیا بھر میں ان اقسام کے پرندوں کی غیرقانونی ترسیل پر سخت قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنی ایمریٹس ایئر لائنز سپورٹ کے تصدیق شدہ ٹوئٹر ہینڈل پر رابطہ کیا گیا تو شریف نامی اہلکار کی جانب سے جوابی پیغام میں کہا گیا کہ وہ اس پر تو کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے اور ساتھ میں ایک لنک شیئر کرتے ہوئے کہا: ایئر لائین کی جانور اٹھانے کی پالیسی سے متعلق آفیشل ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے‘۔ 

آفیشل ویب سائٹ کے مطابق دبئی سے پاکستان کے چند مقامات پر فیلکن لے جانے کی اجازت ہے اور اس کے علاوہ قوت بینائی سے محروم افراد کی رہنمائی کرنے والے کتوں کی بھی اجازت دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ چند شرائط پر پالتو جانوروں کو بھی ایمریٹس کی فلائٹ میں لے جانے کی اجازت ہے۔

سائٹس تنظیم کی فہرست میں شامل جانوروں کو کارگو کے طور پر لے جایا جاسکتا ہے، مگر یہ واضح نہیں لکھا گیا کہ سائٹس تنظیم کی فہرست میں شامل جانوروں کو لے جانے کے لیے کن دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

پاکستان کسٹم کے ترجمان ایس ایم عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضبط کیے گئے پرندوں کو چڑیا گھر کے حوالے کیا جائے گا۔

دوسری جانب محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسٹم حکام نے مذکورہ فلائٹ پر کارروائی کے بعد محکمہ جنگلی حیات سے رابطہ کرکے سادہ کاغذ پر کیس محکمے کے حوالے کرنا چاہا تو محکمے نے انہیں ہدایت کی کہ ملزم کو پرندوں سمیت ڈی پورٹ کیا جائے تاکہ پرندے جہاں سے آئے ہیں، وہاں واپس جا سکیں، یا پھر کسٹم قانون کے تحت شروعاتی کارروائی کرکے بعد میں کیس جنگلی حیات کے حوالے کیا جائے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان