ایک ماں کو اولاد کی زندگی ادھار دینی ہے، دے سکتے ہیں؟

ان جوان ماں باپ کے سیاہ کالے بال سفید ہو جاتے ہیں، جسم ایک سال میں ڈھل جاتا ہے، آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں، بھوک مر چکی ہوتی ہے اور آس اپنی سانس کی نہیں، بچے کے لیے اگلی بوتل خون کی ہوتی ہے۔

دنیا میں کچھ مائیں ایسی بھی ہیں جو اپنی اولاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر روز اگلے کچھ دن مزید ادھار لیتی ہیں۔

یہ قرض کون دیتا ہے؟ اور آپ نے ان ماؤں کے بارے میں جاننا ہی کیوں ہے ۔۔۔ سب کچھ واضح کرنے سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں، جس نے میری زندگی تو خیر کیا بدلی ہو گی، میرے زمین آسمان کو ہلا کر بس گزر گیا۔

بتایے کہ ایسا بلڈ گروپ جو پورے اسلام آباد میں صرف ایک بوتل پڑا ہو اور آپ کے مریض کی جان کا انحصار اسی پہ ہو ۔۔۔ تو آپ کیا کریں گے؟

دنیا میں سب سے بڑی آزمائش کسی پیارے کی بیماری ہے۔ بندہ خود بیمار ہو تو جیسے تیسے سہہ جاتا ہے، گھر والوں میں سے کسی کا نمبر آ جائے تو بس خدا اس کرب اور اذیت سے دور رکھے۔

جیتے جی مر جانے کے ایسے چند لمحے آپ سب نے کبھی نہ کبھی گزارے ہوں گے۔ اگر نہیں گزرے تو بس دعا کیجے کہ دشمن کو بھی کبھی سامنا کرنا نہ پڑے۔

 تین ماہ پہلے ایسا ہی ایک وقت اچانک آ گیا۔

’صبح سرجری ہے، بلڈ گروپ اے نیگیٹو ہے اور چار بوتلیں خون کی درکار ہوں گی۔‘

پیسوں وغیرہ کا معاملہ تب پڑتا ہے کہ جب دوا کھلے عام دستیاب ہو اور آپ کہیں سے بھی جا کے خرید لیں۔ اے نیگیٹو خون کہاں سے لیں گے؟ کہاں سے خریدیں گے؟ جب ہے ہی نہیں تو پھر؟

اس وقت کی بے بسی سوچیں اور کانپ جائیں کہ جب زندگی کا بالکل کچا سا دھاگہ ایک دو بوتل خون سے جڑا ہو اور بلڈ گروپ جو درکار ہے وہ سرے سے کہیں موجود ہی نہ ہو۔

فیس بک پہ مدد کی اپیل لگائی، کئی مزید دوستوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا پر وہ پیغام پھیلایا، کچھ عزیز رشتے دار مدد کو آئے، دو بوتلیں چوبیس گھنٹوں میں کسی نہ کسی طرح بندوبست ہو گئیں۔

یہ نہیں علم تھا کہ اگلے دو دن ایک پارٹی پنڈی اسلام آباد کو بند کر دے گی اور چار مزید اے نیگیٹو چاہیے ہوں گے۔

خون دینے والے موجود ہیں کہ جتنا مرضی نکال لو مگر ان میں سے اے نیگیٹو کوئی نہیں۔ پیسے موجود ہیں لیکن اے نیگیٹو کم از کم اسلام آباد کے ہسپتالوں میں نہیں اور باقی دنیا کے راستے بند ہیں۔

بے بسی ہے اور اضطراب، اور وقت ہے کہ جیسے مٹھی میں بند ریت۔۔۔

خیال آیا کہ تھیلیسیمیا مرکز والوں کے پاس مکمل تفصیل ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات رضاکاروں کا بھی ڈیٹا ہوتا ہے۔

دو ہزار فون نمبروں کی لسٹ میں ایک نمبر تھا ’اظہر شیخ تھیلیسیمیا‘ ۔۔۔ انہیں فون کیا اور پوری صورت حال بتا دی۔

وہ مہربان آدمی چھ گھنٹے مسلسل رابطے میں رہے، ہر ممکن شخص کو تلاش کیا، کوئی بلڈ بینک نہیں چھوڑا، کوئی ہسپتال ایسا نہیں تھا کہ جہاں فون نہ گیا ہو، ساتویں گھنٹے دو بوتلوں کا بندوبست ہو گیا لیکن دونوں شہر مکمل بند، احمقوں کا ہجوم سڑکوں پہ اور ہسپتالوں میں بے بس مریض!

راولپنڈی کے ایک دوست سے درخواست کی، وہ سخت سردی میں کوئی راستے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی موٹر سائیکل پہ یہاں پہنچا گئے۔ ان کی یہ مدد بھی دل پہ لکھی گئی۔

سچویشن قابو میں آ گئی، معاملات بہتر ہو گئے، خدا مزید اچھا کرے لیکن ایک سوال اس دن سے آج تک میں دماغ سے نکال نہیں پایا۔

خون نہ ملتا تو کیا ہوتا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میری پریشانی چار دن پہ پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی ایسا بھی ہو گا کہ جو ساری عمر، ہر صبح اس سوال کا سامنا کرتا ہو؟

سوچیں کہ دنیا میں کچھ مائیں ایسی بھی ہیں جو اپنی اولاد کے لیے روز چند ہفتے مزید ادھار لیتی ہیں۔ ان کے بچوں کا جسم نیا خون نہیں بنا سکتا اور جو خون انہیں لگایا جاتا ہے وہ بیس پچیس دن سے زیادہ کام نہیں کرتا۔

ان جوان ماں باپ کے سیاہ کالے بال سفید ہو جاتے ہیں، جسم ایک سال میں ڈھل جاتا ہے، آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں، بھوک مر چکی ہوتی ہے اور آس اپنی سانس کی نہیں، بچے کے لیے اگلی بوتل خون کی ہوتی ہے۔

تھیلیسیمیا کیوں ہوتا ہے، تھیلیسیمیا میجر سے بچنے کے لیے کیا تدابیر ممکن ہو سکتی ہیں، یہ سب باتیں آپ کو گوگل بتا دے گا۔ ماں باپ کے سینے کی جکڑن شاید وہ نہ سمجھا پائے۔

اس مرض میں مبتلا ایک بچے کی دیکھ بھال کا سالانہ خرچہ 10 سے 12 لاکھ روپے ہوتا ہے اور پاکستان میں ایک کروڑ لوگ اس مرض کے کیریئر ہیں۔ ہر سال تقریباً پانچ ہزار بچوں میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور ہسپتالوں کے تاحیات پھیرے شروع ہو جاتے ہیں۔

پیسہ ہونے کے باوجود پرائیویٹ طور پر بچوں کے لیے خون کی دستیابی ممکن نہیں ہوتی۔ گھوم پھر کے والدین کو ان سینٹرز سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو صرف اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور وہیں سے اس ادھار زندگی کا سلسلہ بحال ہوتا ہے۔

اس تحریر کے صرف تین مقصد ہیں۔

  • آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’اللہ کی مرضی، بندہ بے بس ہے!‘ اس کے بعد ایک ٹھندی آہ بھر کے کھانا نوش جان کر سکتے ہیں۔
  • آپ دنیا میں کہیں بھی موجود ہوں، آس پاس کا تھیلیسیمیا سینٹر ڈھونڈ کے وہاں خون دے سکتے ہیں اور اپنا شمار خون دینے والے رضاکاروں میں کروا سکتے ہیں۔
  • آپ ان بچوں کی مدد کے لیے جو بھی ادارہ قابل اعتماد لگے، وہاں جا کے، دوائیں، کھلونے یا نقدی جمع کروا سکتے ہیں۔

کچھ بھی نہیں کر سکتے تو اس پیغام کو بے شک اپنی تحریر بنا کے، میرا نام ہٹا کے آگے بس شیئر دیں۔

پس تحریر: رمضان شریف میں خاص طور پہ تھیلیسیمیا مراکز کو خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ مناسب سمجھیں تو روزوں سے پہلے قریبی تھیلیسیمیا مراکز میں جا کے رضاکارانہ طور پر اپنی صحت کا یہ صدقہ جمع کروا دیجیے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ