پشاور دھماکہ: سہولت کار گرفتار، ’منصوبہ افغانستان میں بنا تھا‘

خیبر پختونخوا پولیس نے بتایا ہے کہ پشاور پولیس لائنز دھماکے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی اور اس کا سہولت کار پکڑا گیا ہے۔

31 جنوری 2023 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر پشاور کی پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کے بعد ریسکیور اہلکار ملبے کے قریب کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

پشاور پولیس لائنز کے مسجد کے دھماکے کی منصوبہ بندی پولیس کے مطابق افغانستان میں ہوئی تھی اور خود کش حملے کے سہولت کار امتیاز خان نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس لائنز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) محکمہ انسداد دہشت گردی پولیس شوکت عباس نے بتایا کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان کے صوبہ قندوز میں ہوئی ہے اور حملے کا ماسٹر مائنڈ خود کش حملہ آور کے ساتھ رابطے میں تھا۔

اے آئی جی شوکت عباس نے بتایا، ’حملے کے سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ کو ٹریس کر لیا گیا ہے۔ حلے کے ماسٹر مائنڈ کا نام غفار عرف سلمان تھا اور جبکہ حملہ کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے کیا تھا۔‘

شوکت عباس نے بتایا کہ ’میں جو بتا رہا ہوں یہ حملے کی تفتیش کے لیے بنی جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ ہے جس کے مطابق 300 سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے خود کش کے سہولت کار کو ٹریس کیا ہے اور خود حملہ آور کا تنظیمی نام ’قاری‘ تھا۔‘

اے آئی جی نے بتایا، ’ملزم امتیاز عرف ’تورہ شپہ‘ (کالی رات) جو گرفتار کیا گیا ہے، خود کش حملہ آور کے ساتھ آئے تھے جبکہ پولیس محکمہ میں کوئی بھی حملہ آور کے ساتھ ملا ہوا نہیں پایا گیا۔‘

رواں سال 30  جنوری کو پشاور کے پولیس لائنز مسجد میں خود کش حملہ ہوا تھا جس میں پولیس کے مطابق 84 افراد ہلاک جبکہ 233 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔

شوکت عباس کے عباس گرفتار ملزم امتیاز خود بھی تربیت یافتہ خود کش حملہ آور ہے اور خودکش حملہ آور ان کو بھی ساتھ لائے تھے تاکہ ایک حملہ ناکام ہونے کے بعد دوسرا حملہ کر سکیں۔

خود کش حملہ آور کے بارے میں شوکت عباس نے بتایا کہ ان کا تعلق قندوز سے تھا۔

شوکت عباس کے مطابق حملہ آور اور گرفتار ملزم دونوں نے مولوی عبدالبصیر کی زیر نگرانی افغانستان کے علاقہ اختونکے سے خود کش کی اکٹھی تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ اس مرکز میں مزید پانچ چھ خودکش زیر تربیت بھی موجود پائے گئے ہیں۔

شوکت عباس نے بتایا، ’دونوں خود کش اسی مرکز سے اکٹھے روانہ ہوئے اور خفیہ راستوں سے پاکستان میں داخل ہوئے۔‘

اس حملے کے دو دن بعد کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی نے کہا تھا کہ ’پاکستان کے محترم وزرا سے بھی امید ہے اپنے کندھوں کا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالیں۔ اپنے مسائل کی بنیادیں اپنے گھر میں تلاش کریں۔ انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ پشاور دھماکے کی پوری باریکی سے تحقیقات کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی جیکٹ، کوئی خودکش، کوئی چھوٹا بم اتنی تباہی پھیلائے۔ پچھلے 20 سالوں میں ہم نے کوئی بم ایسا نہیں دیکھا جو مسجد کی چھت اور سینکڑوں انسانوں کو اڑائے۔ لہذا اس کی باریک بینی سے تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا الزام افغانستان پر نہ لگایا جائے۔‘

پشاور پولیس لائنز کا دھماکہ بہت عرصہ شدت پسند کارروائیوں میں کمی کے بعد بڑا حملہ تھا جس نے پورے ملک میں خوف پھیلایا تھا۔ دھماکے میں زیادہ تر پولیس اہلکاروں کا جانی نقصان ہوا تھا۔

حملے کے بعد پولیس کی جانب سے سی سی ٹی پی فوٹیج بھی جاری کی گئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ حملہ آور پولیس وردی میں پولیس لائن میں داخل ہوا تھا اور پولیس وردی کی وجہ سے اسے چیک پوسٹ پر نہیں روکا گیا تھا۔

حملہ آور کو ایک دوسرے سی سی ٹی وی میں بھی دیکھا گیا تھا جب وہ پشاور رنگ روڈ پر موٹر سائیکل پر سوار تھا، اور ان کے ساتھ ایک دوسرا شخص بھی بیٹھا ہوا تھا۔

اے آئی جی شوکت عباس کے مطابق سی سی ٹی وی میں جو شخص وردی میں دیکھا گیا تھا، یہی شخص خود کش حملہ آور تھا جبکہ گرفتار شخص امتیاز، جو خود بھی خود کش حملہ آور تھا ان کی مدد کے لیے آیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان