پتہ نہیں لندن جائیدادوں کے لیے پیسے کہاں سے آئے: خالد مقبول  

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے مطابق: ’لندن کی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقوم جان سے جانے والے ایم کیو ایم کارکنوں کے لواحقین، اسیروں کی قانونی مدد اور غریبوں کی صحت اور تعلیم کے لیے خرچ کی جائے گی۔‘

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ موجودہ ایم کیو ایم میں موجود لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ’لندن میں جائیدادیں کس نے اور کب خریدیں اور ان کے لیے پیسے کس نے دیے؟

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ’جن لوگوں نے یہ جائیدادیں خریدی تھیں وہ یا تو ملک سے باہر ہیں یا پھر ایم کیو ایم میں بھی نہیں ہیں۔‘

ایم کیو ایم پاکستان نے اسی ہفتے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف لندن میں موجود جائیدادوں کی ملکیت سے متعلق کیس جیتا ہے۔

اس حوالے سے گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ ’یہ (جائیدادیں) گذشتہ 20 سے 25 سال کے دوران ہی خریدی گئی تھیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ لندن میں موجود پارٹی کی جائیدادوں کی تقسیم ایک ٹرسٹ بنا کر مستحقین میں کی جائے گی۔  

بقول خالد مقبول صدیقی لندن کی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقوم جان سے جانے والے ایم کیو ایم کارکنوں کے لواحقین، اسیروں کی قانونی مدد اور جن علاقوں میں ماضی میں ایم کیو ایم کی نمائندگی رہی، وہاں موجود غریبوں کی صحت اور تعلیم کے لیے خرچ کی جائے گی۔  

ان کا کہنا تھا کہ ’کیس جیتنے کے بعد متوقع ملکیتی جائیداد کی اصل مالیت کا ابھی تک اندازہ نہیں، جلد مالیت کا بھی اندازہ لگایا جائے گا۔‘

اس سے قبل خبریں سامنے آئی تھیں کہ ان جائیدادوں کی مالیت تقریباً ایک کروڑ پاؤنڈ ہے۔

مقدمہ کیا تھا اور کب شروع ہوا تھا؟

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے لندن میں موجود بانی ایم کیوایم الطاف حسین کی رہائش گاہ اور ایم کیو ایم کے سابقہ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ سمیت چھ پراپرٹیز کے لیے دائر کیس کا فیصلہ لندن کی عدالت کی جانب سے پیر (13 مارچ) کو ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں سنایا گیا تھا۔  

انگلینڈ اینڈ ویلز کے ہائی کورٹ آف جسٹس بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹ میں انسولوینسی اینڈ کمپنیز کے جج کلائیو جونز کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی حقیقی ایم کیو ایم ہے اور اس کے اراکین کی نمائندہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے اس کیس میں ایم کیو ایم پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ 2015 کا ایم کیو ایم کا آئین، ایم کیو ایم پاکستان نے اپنایا تھا۔ مزید کہا گیا کہ یہ اپریل 2016 کا آئین تھا جسے ایم کیو ایم پاکستان نے اپنایا تھا۔

اس مقدمے کی سماعت گذشتہ سال نومبر کے آخر میں شروع ہوئی تھی، جہاں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اپنی پارٹی کے سابق وفاداروں کے آمنے سامنے دیکھا گیا، جو اب ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ ہیں اور جنہوں نے شمالی لندن میں واقع ان جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا۔

اس مقدمے کی سماعت جنوری کے آخر میں اختتام پذیر ہوئی تھی۔

اگست 2016 میں الطاف حسین کی ایک متنازع تقریر کے بعد کراچی میں تشدد کا آغاز ہوا تھا اور ایم کیو ایم دو دھڑوں ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم ہو گئی تھی۔ کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ایک گروپ پہلے ہی مارچ 2016 میں پاک سرزمین پارٹی بنا کر الگ ہوگیا تھا۔

اس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے ایک نیا آئین بنایا، جس کے تحت الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرلی گئی اور اسی دعوے کو ایم کیو ایم پاکستان نے لندن کی جائیدادوں کی ملکیت حاصل کرنے کی بنیاد بنایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان