پاکستان کی تقسیم شدہ سیاست کو اکسیر کی ضرورت ہے

میں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک ہفتہ گزارا اور تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے رجحانات اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان پائیدار تعلقات پر اظہار خیال کیا۔

18 مارچ 2023، اس تصویر میں اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقعے پر ہونے والے تصادم کے بعد ایک جلتی ہوئی گاڑی کے پاس دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

بانی پاکستان محمد علی جناح ملک کو جمہوری اور ترقی پسند دیکھنا چاہتے تھے لیکن ملک کی اتار چڑھاؤ سے بھری تاریخ نے اس کے بانی کے تصور کی نفی کر دی ہے۔

عالمی جغرافیائی سیاست میں انتخاب یا انڈیا کے ساتھ تعلقات کے علاوہ بھی، اندرونی کشمکش ملک کی سیاسی زندگی کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔ آج یہ کشمکش قوم کو تقسیم کر رہی ہے۔

میں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک ہفتہ گزارا اور تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے رجحانات اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان پائیدار تعلقات پر اظہار خیال کیا۔

اس دورے نے مجھے پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بارے میں جاننے والے ساتھیوں اور پرانے دوستوں کے ساتھ بصیرت انگیز گفتگو کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔

اس کے باوجود کہ ملک اس وقت ایک سنگین معاشی بحران کا شکار ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، پاکستان سیاسی طور پر جس قدر منقسم ہے اس کے بارے میں جان کر خاص طور پر مایوسی ہوئی۔ درحقیقت ساخت کے اعتبار سے ان مسائل کی جڑیں ایک دوسرے میں الجھی ہوئی ہیں۔

 لیکن میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ پاکستان کچھ سال پہلے جمہوری تبدیلی کے ایک مستحکم راستے پر تھا۔ اسے عالمی سطح پر دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا تھا۔ پھر کیا غلط ہوا؟

میں 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا ہوں جب پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول میں موجود تھا۔

اپنی قیادت کی ہدایات اور رہنمائی پر میں نے اس وقت کی پاکستانی قیادت کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام امور پر قریبی رابطہ رکھا۔

مملکت کی اولین ترجیح پاکستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنایا اور نیک نیتی سے اپنے بھائیوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی۔

اسلام کا مرکز ہونے کے منفرد مقام کی بدولت سعودی عرب ہمیشہ مسلم ممالک اور ایک مسلم امہ کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بنیادی طور پر عوامی نوعیت کے ہیں اس لیے حکومت یا قیادت کے کسی بھی چیلنج سے محفوظ ہیں۔

برسوں میں ہماری فوجی کمانڈ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوا ہے۔ مملکت تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات کو بھی آگے بڑھاتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال رہے۔

کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو۔ سیاسی استحکام معاشی پالیسی کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔

اس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد اور تمام اقتصادی شعبوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سیاسی عدم استحکام کا برقرار رہنا اقتصادی ترقی کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔

اگر عوام معاشی تکلیف میں مبتلا ہوں تو جمہوریت کے نام پر کوئی بھی سیاست بے معنی ہو جاتی ہے۔

اس وقت پاکستان کے ساتھ مسئلے کی شدت دگنی نظر آتی ہے۔ ایک طرف عوامی سیاست میں مقبولیت پسندی نے سیاست اور معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والی معیشت کو بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جنہیں سیاسی تقسیم کے ماحول میں عملی شکل دینا مشکل ہے۔

سیاسی کشمکش اور معاشی بحران ایک دوسرے کو بڑھاوا دیتے ہیں اور اس کا انجام تباہ کن ہی نکل سکتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے تمام سیاسی کرداروں اور ریاستی اداروں کی طرف سے مفاہمت اور تحمل کے جذبے کی تجدید کی ضرورت ہے۔

مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم موجودہ دلدل سے کامیابی کے ساتھ نکلنے صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ اس سے پہلے بھی کئی بار ایسا کر چکی ہے۔

1971 میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد کی صورت حال، افغانستان میں پے در پے جنگیں اور قدرتی آفات جیسے 2005 کا تباہ کن زلزلہ اور گذشتہ سال سیلاب سے ہونے والی وہ تباہی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس کی مثال ہیں۔

پاکستان کے ایک دوست کے طور پر، وہاں کی سفارتی خدمات کے دوران بہت سی یادوں کے ساتھ اور ایک آزاد مفکر کے طور پر میری موجودہ حیثیت میں، مجھے اس کے رہنماؤں کے لیے دو قابل عمل اقدامات تجویز کرنے کی آزادی ہے۔

سب سے پہلے معیشت، قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے قومی ایجنڈے کے بنیادی مسائل پر بنیادی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے اہم فریقین کے درمیان اختلاف رائے کو جگہ دینے کے بعد سامنے آنا چاہیے۔

پاکستان آئی ایم ایف معاہدے کو بحال کیے بغیرمعیشت کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتا۔ یقیناً اس کے لیے کچھ شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف کچھ دینے اور لینے کے بعد راضی ہو سکتا ہے اور حکومت کو اس پر عمل کرتے ہوئے کچھ سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ لیکن معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنا اہم ضرورت ہے۔

 پاکستان کو سعودی عرب جیسے بااعتماد دوستوں کا تعاون حاصل رہے گا۔ تاہم طویل مدت کے دوران سرمایہ کاری، نئے طریقوں اور پیداواری صلاحیت حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے میں آگے ہونا چاہیے۔

قومی سلامتی کے معاملے میں 2014 میں ایک نادر مثال سامنے آئی جب تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اکٹھے ہوئیں۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مثالی مہم شروع کی۔ یہ عفریت ایک بار پھر افغان سرحد کے پار سے سر اٹھا رہا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ تمام رہنما اس لعنت سے نمٹنے کے لیے دوبارہ ایک صفحے پر نہ آئیں۔

جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی دائرہ کار طاقت کے حصول کے لیےداخلی سیاسی کھیلوں سے محفوظ ہونا چاہیے۔

دوسری باتوں کے علاوہ ان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں جس کے ساتھ پاکستان نے وقتاً فوقتاً سٹریٹجک شراکت داری کی ہے۔

چین کے معاملے میں جس کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا فلیگ شپ پروگرام، سی پیک کو رواں سال ایک دہائی مکمل ہو رہی ہے، اور مملکت اور دیگر خلیجی ممالک جن کے ساتھ پاکستان بھرپور تاریخی اور برادرانہ رشتوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔

تجویز کردہ دوسرا طریقہ کار سیاست کے بنیادی اصولوں سے متعلق ہے جن پر تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہونا چاہیے اور ان کی پابندی کی جانی چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ عسکری قیادت نے بالآخر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اب سیاست دانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سمجھ داری سے کام لیں ایک دوسرے کا احترام کریں اور عوامی بھلائی کے لیے کام کریں۔

اسی طرح انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو احتساب کے ایک مؤثر نظام کے ذریعے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر سیاسی مسابقت کی فضا کو منظم کرنے اور سیاسی تنازعات کو قومی مفاہمت کی حقیقی روح کے تحت سمجھوتے کے ذریعے حل کرنے کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کریں۔

پاکستان نا صرف نسلی اعتبار سے متنوع ہے بلکہ اس میں علاقائی تفریق بھی ہے۔ یہ تنوع اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ تفریق کو وسائل کی منصفانہ تقسیم اور طاقت کی تقسیم کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان جیسی ترقی پذیر قوموں کے عوام کے اصل مسائل ہمیشہ روٹی روزی وغیرہ کے گرد گھومتے ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مقابلہ اور تعاون کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائیں۔

ملکی مفاد کی خاطر انہیں معاف کرنے اور بھول جانے کا حوصلہ رکھنا اور ملک کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اس بات کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ آج پاکستان سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے دوسرے جنوبی ایشائی ممالک عالمی سطح پر اپنی سیاست اور معیشت کا سکہ منوا رہے ہیں۔

پاکستان کے اس وقت ایک اکسیر کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان سعودی عرب پر انحصار کر سکتا ہے جو پاکستان کے مستقبل پر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔

لیکن حقیقی معاشی بحالی اور سیاسی استحکام پاکستان کے اندر سے ابھرنا چاہیے۔ ایسا جتنا جلدی ہو گا اتنا بہتر ہو گا۔

مصنف کے بارے میں

ڈاکٹر علی عواد العسیری نے 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سعودی پاکستان تعلقات کو فروغ دینے میں ان کی خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان حاصل کیا۔

انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہے اور 'دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار' (آکسفورڈ، 2009) نامی کتاب لکھ چکے ہیں۔


نوٹ: اس تحریر میں شامل خیالات مصنف کی ذاتی رائے ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ مضمون پہلے عرب نیوز میں شائع ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ