زلمے خلیل زاد کا بیان: امریکی امیج بہتر بنانے کی کوشش؟

سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے عمران خان کے حق میں بیانات کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان میں امریکی امیج بہتر بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

زلمے خلیل زاد 27 اپریل 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں (اے ایف پی)

پاکستان کے دفتر خارجہ نے سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بین الاقوامی لابیئسٹ پاکستان میں خانہ جنگی کرانے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور یہ (زلمے کی) ٹویٹ اسی منصوبے کی کڑی ہے۔‘

دفتر خارجہ نے گذشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان کو آج درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کسی سے لیکچرز یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک لچکدار قوم کے طور پر ہم موجودہ مشکل صورت حال سے مضبوطی سے نکلیں گے۔‘

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ شاید زلمے خلیل زاد پاکستان میں امریکہ کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے زلمے خلیل زاد کے بدھ کو دیے گئے ٹویٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکی سازش اور امپورٹڈ رجیم کی اصلیت سامنے آ گئی ہے، یہودی لابی اپنا سٹوج (کٹھ پتلی) بچانے کے لیے سامنے آ چکی ہے، فارن فنڈنگ کے مجرم کے ہینڈلرز سامنے آتے جا رہے ہیں۔‘

زلمے خلیل زاد کا بیان

زلمے خلیل زاد نے اپنی بدھ کی ٹویٹ میں کہا کہ ’ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ، جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دینے اور پی ٹی آئی کو اگلے چند دنوں میں منع کرنے کے لیے بھی کہہ سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے تین بحرانوں کو مزید گہرا کریں گے: سیاسی، اقتصادی اور سلامتی۔ پہلے ہی کچھ ممالک نے منصوبہ بندی سرمایہ کاری کو معطل کر دیا ہے۔‘

زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف کی حمایت مشکوک ہے۔ اگر مذکورہ اقدامات کیے گئے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت میں مزید کمی آئے گی۔ سیاسی پولارائزیشن اور تشدد بڑھنے کا امکان ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاسی رہنما تباہ کن چھوٹی سیاست سے اوپر اٹھیں گے جو قومی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر نہیں تو مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ ایسے کھیلوں میں استعمال ہونے سے منع کرے گی جو قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مجھے پاکستان کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔‘

زلمے خلیل زاد کی یہ ٹویٹ گذشتہ ہفتے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی عدالت میں پیشی اور لاہور میں گرفتاری کے موقعے پر منظر عام پر آئی تھی، جس پر بعد ازاں دفتر خارجہ نے ردعمل دیا۔

زلمے خلیل زاد نے پہلی ٹویٹ میں کہا تھا کہ 'پاکستان کو تہرے بحران کا سامنا ہے, سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی۔ بڑی صلاحیت کے باوجود یہ کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے حریف بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ یہ سنجیدہ روح کی تلاش، جرات مندانہ سوچ، اور حکمت عملی کا وقت ہے۔ یہاں یہ میرے خیالات ہیں۔‘

انہوں نے مزید لکھا تھا: ’لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے، پھانسی دینے، قتل کرنے وغیرہ کے ذریعے نسل کشی کرنا غلط راستہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے بحران مزید گہرا ہو گا۔ میں دو اقدامات پر زور دیتا ہوں: نمبر ایک، خرابی کو روکنے کے لیے جون کے اوائل میں قومی انتخابات کے لیے ایک تاریخ مقرر کریں۔ نمبر دو، اس وقت کو اہم سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال کریں کہ کیا غلط ہوا ہے اور ملک کو بچانے اور استحکام، سلامتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک مخصوص منصوبہ تجویز کریں۔ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے گی اسے عوام کا مینڈیٹ ملے گا کہ کیا کرنا چاہیے۔‘

سفارتی ماہرین کا موقف

زلمے خلیل زاد کے علاوہ آسٹریلوی سینیٹر ڈیوڈ شوبرج نے بھی عمران خان کی گرفتاری کے موقعے پر ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا: ’ہم حکومت پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے انسانی حقوق کو برقرار رکھے اور آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ تشدد کی بڑھتی ہوئی رپورٹیں گہری تشویش کا باعث ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی ممالک میں پاکستان کے سابق سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دینے والے عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ زلمے خلیل زاد کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ ریٹائرڈ ہیں اس لیے ان کو امریکہ کا سرکاری موقف نہیں کہا جا سکتا۔

’لیکن زلمے خلیل زاد امریکی طاقتور حلقوں سے رابطے میں ضرور ہیں۔ اس لیے اس کو لابی کہا جا سکتا ہے اور اس طرح کے بیانات سے بےیقینی بھی پیدا ہوتی ہے۔‘

عبدالباسط کا خیال تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیے کے بعد زلمے خلیل زاد پاکستان میں شاید امریکہ کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے بعد اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان اور تحریکِ انصاف کے دیگر رہنما اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے رہے ہیں، جس کے بعد Absolutely Not کے نام سے ایک مہم بھی شروع کی گئی اور یہ نعرہ آج بھی گاڑیوں پر لکھا نظر آتا ہے۔ تاہم بعد میں عمران خان نے اپنے بیانیے میں ترمیم کر لی تھی اور حالیہ بیانات میں وہ امریکہ کی بجائے فوج کو اپنی معزولی کا محرک قرار دیتے رہے ہیں۔

سفارتی امور کے ماہر صحافی و تجزیہ کار شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’زلمے خلیل زاد کے مسلسل ٹویٹس کے کئی پہلو ہیں کیونکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ اور عمران خان کے حالات ملتے جلتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ زلمے خلیل زاد پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ ہی متنازع رہے ہیں، وہ مشرف دور میں امریکہ کے افغانستان میں سفیر تھے اور افغان صدر حامد کرزئی اتنا پاکستان کے خلاف نہیں بولتے تھے جتنا زلمے خلیل زاد بولتے تھے، اس لیے وہ پاکستان کے لیے کبھی بھی دوستانہ نہیں رہے۔

شوکت پراچہ نے کہا کہ عمران خان نے پیسے خرچ کر کے امریکہ میں لابی فرم کی خدمات لی تھیں جس کا یہ ثمر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان