خالصتان احتجاج: انڈیا نے کینیڈا کے سفیر کو بھی طلب کر لیا

انڈیا کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو کینیڈا کے اعلیٰ سفارت کار کو طلب کیا اور اس بارے میں وضاحت طلب کی کہ کس طرح علیحدگی پسندوں کو اس کے سفارتی مشن اور قونصل خانوں کی حفاظت کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دی گئی۔

چھ جون 2020 کو امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کے داخلی دروازے پر آپریشن بلیو سٹار کی 36 ویں سالگرہ کے موقع پر سکھ انتہا پسند کارکنوں نے عبادت کے بعد خالصتان کے حق میں اور حکومت مخالف نعرے لگائے (اے ایف پی)

انڈیا نے اپنے سفارتی مشنوں اور قونصل خانوں پر سکھ علیحدگی پسندوں (خالصتان تحریک) کے تازہ حملے پر کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کیا ہے۔

خالصتان تحریک ایک سکھ علیحدگی پسند تحریک ہے، جو اس مذہبی برادری کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتی ہے، کے حامیوں نے بیرون ملک انڈین مشنوں میں توڑ پھوڑ کی ہے۔

یہ تازہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے لندن میں ملک کے ہائی کمیشن میں انڈین پرچم کو نیچے اتارا گیا اور عمارت کی کھڑکی توڑ دی گئی تھی۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو کینیڈا کے اعلیٰ سفارت کار کو طلب کیا اور اس بارے میں وضاحت طلب کی کہ کس طرح علیحدگی پسندوں کو اس کے سفارتی مشن اور قونصل خانوں کی حفاظت کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دی گئی۔

وزارت نے ایک بیان میں کہا: ’یہ توقع کی جاتی ہے کہ کینیڈا کی حکومت وہ تمام اقدامات کرے گی جو ہمارے سفارت کاروں کی حفاظت اور ہمارے سفارتی احاطے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں تاکہ وہ اپنے معمول کے سفارتی کاموں کو پورا کر سکیں۔‘

نئی دہلی نے کینیڈا کی حکومت کو ویانا کنونشن کے تحت اس کی ذمہ داریوں کی بھی یاد دہانی کروائی اور اس سے کہا کہ وہ ایسے افراد کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے، جو اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

کینیڈا بیرون ملک مقیم سکھوں کا ایک بڑا ملک ہے۔

کینیڈا میں گذشتہ اتوار کو ایک طے شدہ ایک پروگرام خالصتان کے حامیوں کے احتجاج کے بعد خدشات کے باعث منسوخ کر دیا گیا تھا، جس میں انڈین ایلچی نے شرکت کرنے تھی۔ صحافی سمیر کوشل، جو احتجاج کی کوریج کے لیے موقع پر موجود تھے، پر بھی مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔

ہفتے کو واشنگٹن ڈی سی میں انڈین سفارت خانے کے باہر مظاہرین نے ایک اور صحافی پر حملہ کیا۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے نامہ نگار للت کے جھا احتجاج کی کوریج کر رہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی خفیہ سروس اور مقامی پولیس کی فوری مداخلت نے جھا کو بچایا۔

اس حملے کی امریکی قانون سازوں کے ساتھ ساتھ انڈیا کی طرف سے بھی شدید مذمت کی گئی۔

انڈین سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا: ’ہم نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے ایک سینیئر انڈین صحافی کے پریشان کن مناظر دیکھے ہیں، جس میں واشنگٹن ڈی سی میں نام نہاد ’خالصتان احتجاج‘ کی کوریج کے دوران بدسلوکی، دھمکیاں اور جسمانی طور پر حملہ کیا گیا تھا۔

’اس طرح کی سرگرمیاں صرف نام نہاد ’خالصتانی مظاہرین‘ اور ان کے حامیوں کے پرتشدد اور سماج دشمن رجحانات کی نشاندہی کرتی ہیں، جو معمول کے مطابق تشدد اور توڑ پھوڑ میں ملوث ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کانگریس کے رکن رو کھنہ نے جھا کے خلاف تشدد کو ’اشتعال انگیز اور صحافت پر حملہ‘ قرار دیا۔

یہ مظاہرے شمالی ریاست پنجاب میں خالصتان تحریک کے ارکان کے خلاف انڈین پولیس کے حالیہ بڑے کریک ڈاؤن کے خلاف تھے۔ یہ ریاست سکھوں کی ایک بڑی آبادی والی ریاست ہے اور جس کی علیحدگی پسند تحریک کے ساتھ ایک طویل، متنازع تاریخ رہی ہے۔

پنجاب پولیس نے مفرور امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لیے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے ہیں، جو ایک خود ساختہ مبلغ اور ایک بنیاد پرست تنظیم ’وارس پنجاب دے‘ یا وارث پنجاب کے رہنما ہیں۔

30 سالہ امرت پال سنگھ اور ان کے معاونین پر ریاست میں انتشار پیدا کرنے کا الزام ہے، جو 1980 کی دہائی میں ہونے والی مسلح بغاوت کی یادوں سے اب بھی پریشان ہیں۔

حکام نے ریاست میں ہزاروں نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا ہے اور بدامنی کو روکنے کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی ہیں۔

پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سکھ چین سنگھ گل نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا کہ امرت پال سنگھ کے کم از کم 154 حامیوں کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا