بنگلہ دیش: مہنگائی پر ’جھوٹی‘ خبر، صحافی گرفتار

بنگلہ دیش کے ایک بڑے اخبار کے صحافی شمس الزمان شمس کو مہنگائی کی ’جھوٹی‘ خبر کے الزام میں گرفتاری کے بعد عدالت نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔

ملزم صحافی شمس الزماں شمس (سکرین گریب میڈیا نیوز 24 / یوٹیوب)

بنگلہ دیش کے ایک بڑے اخبار کے صحافی کو خوراک کی قیمتوں کے بارے میں ’جھوٹی‘ خبر کے الزام میں گرفتاری کے ایک دن بعد عدالت نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔

صحافی کو جرم ثابت ہونے پر ممکنہ طور پر 14 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔

روزنامہ ’پرتھم الو‘ کے شمس الزمان شمس پر اشیائے خوردونوش کی اونچی قیمتوں پر ’جھوٹی‘ خبر دینے کا الزام ہے۔

یہ خبر 26 مارچ کو روزنامے میں شائع ہوئی جس کے بعد یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ بعد میں حکام نے بدھ کی صبح شمس کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا تھا۔

بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے صحافیوں کو بتایا کہ گرفتار صحافی سے پولیس نے ’جھوٹی کہانی‘ کے لیے پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

شمس پر اب بنگلہ دیش کے ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے جس کے بارے میں ملک میں حقوق کے کارکنان اور وکلا کا دعویٰ ہے کہ اس قانون کو حکومت مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں حکمران عوامی لیگ کے حامیوں نے اخبار کو خبر چلانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ پرتھم الو کے ایڈیٹرز نے کہا کہ وہ شمس کی خبر پر قائم ہیں، جس میں بنگلہ دیشیوں کو ان کی زندگیوں اور ملک میں خوراک کی بلند قیمتوں کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

اتحاد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان واقعات میں سے ہر ایک کی ’فوری اور غیر جانبدارانہ‘ تحقیقات کرے۔

ڈھاکہ ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ پرتھم الو کے ایڈیٹر اور پبلشر مطیع الرحمان، ایک نامعلوم اسسٹنٹ کیمرہ مین اور کئی دیگر کے خلاف بھی اسی کیس میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش میں میڈیا فریڈم کولیشن نے – جو چند مغربی ممالک کی طرف سے ایک تنظم ہے۔ بھی ’صحافیوں کے خلاف تشدد اور دھمکیوں کی رپورٹس جن میں سپریم کورٹ کے انتخابات کی کوریج کرنے والے نامہ نگاروں پر تشدد، لندن میں مقیم الجزیرہ کے ایک صحافی کے بھائی پر حملہ، ڈھاکہ ٹریبیون کے فوٹو جرنلسٹ پر حملہ اور حال ہی میں پرتھم الو کے ایک صحافی کی گرفتاری کی اطلاع پر ایک سخت بیان جاری کیا۔ 

شمس کی خبر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی لیکن جب خبر پرتھم الو کے فیس بک پیج پر شیئر کی گئی تو اس میں ایک ایسے شخص کی غلط تصویر استعمال ہو گئی جس کا حوالہ دیا گیا تھا۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس خبر پر تنقید کی گئی کیونکہ اخبار نے 40 سالہ ذاکر نامی مزدور کے اقتباس کے ساتھ ایک بچے کی تصویر کا استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرتھم الو نے تقریباً آدھے گھنٹے کے اندر رپورٹ واپس لے لی اور دن کے آخر میں ایک تصحیح جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرخی اور ساتھ والی تصویر میں تضاد تھا۔

بی بی سی نے اخبار کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر سجاد شریف کے حوالے سے کہا، ’ایک بار جب ہمیں غلطی کا احساس ہوا تو ہم نے اسے فوری طور پر ہٹا دیا اور (ترمیم شدہ) رپورٹ کے تحت وضاحت جاری کی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اخبار خبر کے ساتھ کھڑا ہے۔ ’کھانے کی قیمت پر مزدور کا بیان حقیقی تھا۔‘

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے شمس کی ’فوری رہائی‘ کا مطالبہ کیا ’جو اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے جعلی الزامات میں ممکنہ طور پر 14 سال قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیل باسٹرڈ نے کہا کہ ’غلط نہ سمجھیں، شمس الزمان شمس کی گرفتاری اور مطیع الرحمان کے خلاف درج مقدمہ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور اس کا حکومت کی طرف سے تمام صحافیوں کو واضح طور پر ڈرانا مقصد ہے۔‘

’پارلیمانی انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت کے تناظر میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر لگائے گئے الزامات کو یکسر ختم کیا جائے۔ ہم شیخ حسینہ کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صحافتی وسعت اور آزادی کا احترام کرے، ورنہ یہ انتخابات تمام جمہوری اعتبار سے محروم ہو جائیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ