کے پی: پی ٹی آئی حکومت بزرگوں کے لیے قانون کے نفاذ میں نو سال ناکام

’خیبر پختونخوا سینیئر سیٹیزنز ایکٹ 2014‘ نامی قانون کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے ہسپتالوں میں خاص سہولیات، الگ وارڈ سمیت علاج معالجے اور دوائیوں کے اخراجات برداشت کرنا شامل تھے۔

سابق صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا اور سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان صحت کارڈ کے حوالے سے ایک تقریب میں لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں (تیمور جھگڑا/ فیس بک/فائل)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گذشتہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں 2014 میں بزرگ شہریوں کی سہولت اور ان کو مختلف مراعات دینے کے حوالے سے قانون پاس کیا تھا لیکن پی ٹی آئی اپنی نو سالہ دور حکومت کے باوجود اس قانون پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی۔

’خیبر پختونخوا سینیئر سیٹیزنز ایکٹ 2014‘ کے نام سے پاس قانون کے تحت ایک کونسل بننا تھی جو بن تو گئی لیکن قانون کے تحت بزرگ شہریوں کو ملنے والے سہولیات ابھی نہیں فراہم نہیں کی گئیں۔

اس قانون کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے ہسپتالوں میں خاص سہولیات، الگ وارڈ سمیت علاج معالجے اور دوائیوں کے اخراجات برداشت کرنا شامل تھے۔

ایکٹ کی دفعہ دو کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے اولڈ ہومز، کلبز، اور دیگر تفریحی مواقع فراہم کرنا بھی شامل تھا۔ اسی طرح قانون کے تحت 60 سال سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں کو ماہانہ وظیفہ دینا بھی ایکٹ کا حصہ تھا۔

اس قانون میں یہ بھی شامل تھا کہ بزرگ شہریوں کو پارکس، میوزیم، لائبریریز کو فری انٹری شامل ہے اور اس مقصد کے لیے قانون کے تحت ایک فنڈ بنانا شامل تھا۔

اس فنڈ میں قانون کے مطابق وفاقی اورصوبائی حکومت کی گرانٹس، عطیات، نجی ادارے اور شخصیات کی جانب سے فنڈ جمع کرنا شامل تھا لیکن ابھی تک اس فنڈ میں حکومت کی جانب سے پیسے جمع نہیں کیے گئے۔

اس قانون کے تحت تمام تر معاملات صوبائی محکمہ سوشل ویلفیئر کے سپرد کر دیے گئے تھے۔

اس حوالے سے سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹر قیوم خان نے انڈپینڈٹ اردو کو بتایا: ’اس قانون کے تحت کونسل تو بن گئی ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے جو سہولیات بزرگ شہریوں کو دینی تھی، وہ نہیں دے سکے۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے تحت چھ لاکھ سے زائد بزرگ شہریوں کے رجسٹریشن کی ہے لیکن قانون پاس کرنے کے بعد اس کے لیے ضروری فنڈ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قیوم خان کے مطابق: ’اگر صرف ماہانہ بھی ایک بزرگ شہری کو وظیفہ دیں گے تو یہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے بنتے ہیں لیکن محکمے کے پاس اتنا فنڈ موجود نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ قانون پر عمل درامد کے لیے کونسل بنایا گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے فنڈ مہیا کرنے کے بعد بزرگ شہریوں کو سہولیات فراہم کی جا سکتی ہے۔

قیوم خان نے بتایا ،’پارکس اور میوزیم میں فری انٹری کی بات ہوئی تھی اور اس ہر عمل درآمد ہورہا ہے لیکن باقی ماہانہ وظیفہ اور دیگر مراعات دینا فنڈ کے ساتھ مشروط ہے۔‘

پاکستان میں 2017 کے مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ سے زائد 60 سال سے زائد کے بزرگ شہری موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 60 سال سے زائد بزرگ شہریوں کی آبادی 17 لاکھ سے زیادہ ہے۔

طاہر کاکڑ خیبر پختونخوا میں بزرگ شہریوں کی حقوق پر کام کرنے والے ہمدرد فلاحی  تنظیم کے سربراہ ہیں اور بزرگ شہریوں کے حقوق پر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قانون پاس تو ہوا ہے اور اس کو بہت سراہا بھی کیا تھا لیکن یہ صرف کاغذوں تک محدود رہا اور ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

انہوں نے بتایا کہ بزرگ شہریوں کو سب سے بڑا مسئلہ صحت اور علاج معالجے کا ہے کیونکہ زیادہ تر بزرگ شہری باقاعدہ طور پر کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور ان کو مسلسل ڈاکٹر کی مشورے اور دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا، ’آج کل کے دور میں ہر بندہ اپنے آپ میں مگن رہتا ہے لیکن معاشرتی اقدار کی وجہ سے یہ بزرگ شہری نہ باہر کسی کو اپنے مسائل بتاتے ہیں اور نہ گھر میں ان کا وہ خیال رکھا جاتا ہے جو ضروری ہوتا ہے۔‘

صحت کارڈ کے حوالے سے طاہر کاکڑ نے بتایا کہ صحت کارڈ سہولت تو موجود ہے لیکن اس میں او پی ڈی اور ریگولر دوائیاں شامل نہیں ہیں اور آج کل مہنگائی کے اس دور میں تو مہینے کی دوا برداشت کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

طاہر کاکڑ کے مطابق بزرگ شہریوں نے کئی سالوں پہلے دور دراز علاقوں سے آ کر پشاور میں رجسٹریشن فورمز جمع کیے ہیں لیکن ابھی تک ان کو قانون کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت