صحت کارڈ کا ایک سال:اکثر مریضوں نے نجی ہسپتال منتخب کیوں کیا؟

صحت انشورنس پروگرام کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس ایک سال میں اس پروگرام سے فائدہ لینے والوں میں 75 فیصد مریض ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں کے بجائے نجی ہسپتال کو ترجیح دی ہے۔

صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان صحت کارڈ کا ایک سال مکمل ہونے پر ایک تقریب میں لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں (تیمور خان جھگڑا/ فیس بک)

’میرے سینے اور بازو میں تکلیف ہوئی تو ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال ضلع دیر لوئر چلا گیا، جہاں پر ٹیسٹ کرانے کے بعد پتہ چلا کہ دل کی چار شریانیں بند ہیں اور مجھے فوری پشاور میں امراض قلب کے لیے بنائے گئے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا گیا جہاں مجھے بغیر کسی فیس کے چار سٹنٹ لگائے گئے۔‘

یہ کہنا تھا ضلع دیر لوئر سے تعلق رکھنے والے محمد کلیم کا جنہوں نے تقریباً چار ماہ قبل صحت کارڈ پروگرام کے تحت پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی ) میں اپنا علاج کرایا تھا۔

کلیم کو صحت کارڈ پروگرام کے تحت چار سٹنٹ لگائے گئے تھے اور ان سے اس کی کوئی فیس نہیں لی گئی تھی۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے نجی ہسپتال کے بجائے سرکاری ہسپتال کو کیوں ترجیح دی تھی؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے مجھے بتایا گیا کہ پشاور کے رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ جا کر اپنا علاج کراؤں تاہم بعد میں ایک دوست کے مشورے سے پی آئی سی گیا اور وہاں پر بہت بہتر علاج ہو گیا۔‘

’صرف داخلے کی پرچی کے روپے لیے گئے تھے، باقی کسی قسم کی فیس نہیں لی گئی تھی۔ باہر اگر میں چار سٹنٹ لگاتا تو اس پر تین لاکھ سے پانچ لاکھ کا خرچہ آتا۔‘

محمد کلیم نے تو سرکاری ہسپتال میں علاج کرایا لیکن صحت سہولت پروگرام کے تحت گذشتہ ایک سال کے دوران  100 مریضوں میں سے 75 نے نجی ہسپتالوں کو ترجیح دی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام شہریوں کے لیے  صحت کارڈ کے نام سے شروع کی جانے والے صحت انشورنس پروگرام کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس ایک سال میں اس پروگرام سے فائدہ لینے والوں میں 75 فیصد مریض ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں کے بجائے نجی ہسپتال کو ترجیح دی ہے۔

محکمہ صحت کی جانب سے 31 جنوری 2022 تک کے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کے اعداد وشمار جاری کیے گئے ہیں جس میں 75 فیصد مریضوں نے صوبے کے نجی ہسپتالوں اور باقی 25 نے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کیا۔

اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2021 سے 31 جنوری 2022 تک اس پروگرام کے تحت سرکاری و نجی ہسپتالوں میں سات لاکھ 30 ہزار سے زائد مریضوں نے فائدہ اٹھایا جن میں پشاور کے ہسپتال سرفہرست ہے۔

 پشاور کے ہسپتالوں میں اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ 14 ہزار سے زائد مریضوں نے اپنا علاج کرایا جبکہ دوسرے نمبر پر سوات کے ہسپتال ہیں، جہاں پر 40 ہزار سے زائد مریضوں کا صحت کارڈ کے تحت علاج کیا گیا۔

یاد رہے کہ صحت سہولت پروگرام کے تحت کوئی بھی خاندان دس لاکھ روپے تک مفت علاج کرا سکتا ہے۔

علاج کرانے کے لیے پروگرام کے قوانین کے مطابق مریض کے لیے ہسپتال میں داخلے کی شرط ضروری ہے کیونکہ اس پروگرام کے تحت او پی ڈی مریضوں کا علاج نہیں ہو سکتا۔

اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں مریضوں کے علاج پر نو ارب روپے سے زائد خرچ ہوئے ہیں۔

تاہم انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ مریضوں اور صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مریضوں نے سرکاری ہسپتالوں کے بجائے نجی ہسپتالوں کو کیوں ترجیح دی ہے۔

محمد ريحان کا تعلق قبائلی ضلع کرم سے ہے جنہیں ناک کی ہڈی کا مسئلہ درپیش تھا تاہم وہ علاج پر زیادہ خرچ کی وجہ سے نہ کرا سکے تھے۔

صحت کارڈ پروگرام شروع ہونے کے بعد انہوں نے ایک نجی ہستپال میں اپوائنٹ منٹ لی اور وہاں پر انہوں نے صحت کارڈ پروگرام کے تحت سرجری کرائی۔

ریحان بتاتے ہیں کہ ’بغیر صحت کارڈ کے علاج پر تقریباً 50 ہزار روپے کا خرچہ آتا تھا لیکن صحٹ کارڈ میں مجھے چھ دن تک دوائیں بھی دی گئیں اور ایک روپیہ بھی نہیں لیا گیا۔‘

جو سرجری ریحان نے نجی ہسپتال سے کرائی وہ پشاور کے کسی بھی سرکاری ہسپتال بھی کرائی جا سکتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں نے سرکاری ہسپتال کا رخ کیا تھا لیکن وہاں پر مجھے سرجری کرانے کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’رش کی وجہ سے میرا نمبر ایک سال بعد آنا تھا اور میں ایک سال انتظار نہیں کر سکتا تھا تو نجی ہسپتال چلا گیا۔‘

ریحان نے نجی ہسپتال جانے کی دوسری وجہ یہ بتائی کہ وہاں انہوں نے اپنی مرضی اور پسند کے ڈاکٹر سے سرجری کرائی جبکہ سرکاری ہسپتال میں پتہ نہیں چلتا کہ آپ کا علاج کون سا ڈاکٹر کرے گا۔

صحت کارڈ کے تحت کیے جانے والے علاج کے اعدادو شمار کو اگر دیکھا جائے، تو اب تک پانچ ہزار سے زائد دل کے آپریشن کیے گئے جبکہ گردوں کے ڈائلاسیز کرنے والے ایک لاکھ مریضوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

اسی طرح صحت کارڈ کے تحت گردوں کی 64 سرجریز کرائی گئی ہیں جبکہ لیور ٹرانسپلانٹ کی تین سرجریز ہوئی ہیں ۔

یاد رہے کہ ڈاکٹروں کی تنظیم ’پروانشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت صوبے کے کسی بھی ہسپتال میں میسر نہیں ہے، اور یہ سرجریز دیگر صوبوں میں صحت کارڈ کے تحت کرائی گئی ہیں۔

مریضوں کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں کی بجائے نجی ہسپتالوں کا رخ کرنے کے بارے میں صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نجی سیکٹر کے ہسپتال کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کی سہولیات سرکاری ہسپتالوں سے بہتر ہیں جو زیادہ تر ممالک میں ہے۔

تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نجی سیکٹر کی موجودگی کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سرکاری سیکٹر کے ہسپتالوں کے ساتھ کمپلیمنٹری کام کر رہے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے کم ریسورسز کی وجہ سے خلا کو پر کر کر سکیں۔‘

ان کے مطابق پاکستان میں یہ دونوں وجوہات ہیں جس کی وجہ سے نجی سیکٹر میں صحت کے مراکز چل رہے ہیں اور  یہ کہنا کہ ہر ایک سرکاری ہسپتال نجی ہسپتال سے بہتر ہے، درست نہیں ہے۔

’تاہم یہ بھی حقیقت ہے کے ہمارے کچھ ہسپتال یا تو نجی ہسپتالوں سے بہتر ہیں یا ان سے مقابلہ کر رہے ہیں جس میں پی آئی سی، لیڈی ریڈنگ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کممپلیکس شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ہسپتال صحت کارڈ سے روینیو بھی بنا رہے ہیں جس میں پی آئی سی سر فہرست ہے۔

مریضوں کے نجی ہسپتالوں کو ترجیح دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ بنیادی طور پر وہ مسئلہ حل کر رہا ہے، جو سرکاری ہسپتال میں ریفارمز لانے سے مشکل ہے۔

’پچھلے 70 سالوں سے ملک میں صرف سرکاری سیکٹر کا صحت نظام رائج ہے جو کافی نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ صحت کارڈ  نجی ہسپتالوں کو سرکاری دائرے میں لا رہے ہیں۔ یعنی اگر کوئی مریض نجی ہسپتال میں علاج مفت کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سرکاری ہسپتال ہوگیا۔‘

صحت سہولت پروگرام کے بارے میں بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ شاید یہ پروگرام زیادہ دیر تک نہ چلے کیونکہ اس کے لیے بہت زیادہ پیسے چاہییں جبکہ تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ ’یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ صحت کارڈ کی رقم لانگ ٹرم میں زیادہ ہوسکتی ہے لیکن ابھی یہ سسٹینیبل ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس پروگرام کے لیے انشورنس کمپنی کو 20 ارب روپے دیے گئے ہیں جبکہ صوبے کے صحت کا بجٹ 146 ارب روپے ہے جو مجموعی بجٹ کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت