آزادی کے گانے گاتی کشمیر کی ریپر

اقرا نثار نویں جماعت کی طالبہ ہیں اور شمالی کشمیر کے قصبے بارہمولہ سے تعلق رکھتی ہیں، اقرا اپنے سٹیج نیم ایلا ینگ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

1947 میں تقسیم ہندوستان کے بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں تشدد پھوٹ پڑا لیکن 1990 کی دہائی میں اس خطے میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد یہاں تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھا گیا جس میں انڈین فوجیوں اور عام شہریوں سمیت سینکڑوں افراد جان سے گئے۔

اس ماحول میں کشمیر کی خواتین ریپرز نے اپنے شوق کے ذریعے ان تصورات کو چیلینج کیا ہے جو یہاں غلبہ پا چکے تھے۔

یوں تو کشمیر میں ریپ موسیقی کا آغاز اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب 15 سالہ کشمیری نوجوان طفیل احمد متو کو سرکاری افواج نے قتل کر ڈالا تھا جب کہ اس بعد تقریباً 100 کے قریب لوگ انڈین فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔

ایسے میں روشن الہی المعروف ’ایم سی کاش‘ نے اپنا پہلا گانا ’میں احتجاج کرتا ہوں‘ ریلیز کیا جو آن کی آن کی کشمیر میں ایک ترانے کی صورت اختیار کر گیا۔

یہ ترانہ ان مظاہرین کے لیے ایک نعرہ بن گیا جو سڑکوں پر نکل کر ’انڈیا سے آزادی‘ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ایسی ہی ایک نوجوان ریپر ہیں اقرا نثار جو نویں جماعت کی طالبہ ہیں اور شمالی کشمیر کے قصبے بارہمولہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اقرا اپنے سٹیج نیم ایلا ینگ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

اقرا انڈین فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والی کشمیری نوجوان برہان وانی پر ایک ریپ لکھ چکی ہیں۔ برہانی وانی سال 2016 میں انڈین فوج کے ساتھ ایک مبینہ جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

برہان وانی کی موت کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو کئی ماہ تک جاری رہا تھا۔

’جب میں نے پہلا ریپ سانگ بنایا تو میرے والد نے اس کی مخالفت کی لیکن میں نے اپنا پہلا گانا ریلیز کیا تو انہوں نے میرا ساتھ دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے آزادی کے بارے میں اس وقت لکھنا شروع کیا جب میں نے دیکھا کہ انڈین فوجی ہمارے نوجوانوں کے ساتھ اور ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔‘

اقرا اپنی موسیقی کے ذریعے کئی اور خواتین کو بھی سماجی دباؤ سے نکل کر اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔

وہ ایسی آوازوں کو سننے اور پہچاننے کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کر رہی ہیں۔

اسی طرح ایک اور ریپر ’مہک اشرف‘ ہیں جو منی می (MENIME) کے سٹیج کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

مہک کا کہنا ہے کہ ’میں امریکی ریپر ایمینیم سے متاثر ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے قدامت پسند معاشرے کے لیے کچھ حصہ ڈالا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کو آگے نہیں آنا چاہیے اور دنیا کو اپنا فن نہیں دکھانا چاہیے، ہمیں بہت سے دقیانوسی تصورات کو توڑنا ہو گا کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریپ صرف مردوں کی بالادستی والی چیز ہے۔‘

مہک اشرف سمجھتی ہیں کہ ’اگر آپ کے پاس ٹیلنٹ ہے تو معمول کو توڑیں اور کچھ غیر معمولی کریں۔‘

روایتی کشمیری موسیقی کو جدید طرز کی دھنوں کے ساتھ ملا کر یہ فن کار ایک منفرد اور طاقتور آواز پیدا کر رہے ہیں جو مقامی اورعالمی سطح پر توجہ حاصل کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین