پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی ’فارن ملٹری فنناسنگ‘ اور ’فارن ملٹری سیلز‘ بحال کرے جو سابق امریکی انتظامیہ نے معطل کر دی تھی۔
یہ بات امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے ولسن سینٹر نامی تھنک ٹینک کے ایک سیمینار سے خطاب میں کہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام کے لیے اپنا کردار دوبارہ ادا کر سکتا ہے کیوں کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ عدم توازن کی پالیسی کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں اور اس تناظر میں پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ امریکہ پاکستان کی ’فارن ملٹری فنناسنگ‘ اور ’فارن ملٹری سیلز‘ بحال کرے جو کہ پچھلی امریکی انتظامیہ نے معطل کر دی تھی۔‘
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کے چین کے ساتھ تعلقات کسی بھی طرح امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خراب کریں۔
’پاکستان خیر سگالی کے طور پر دونوں قوتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے اگر وہ چاہیں تو جیسا کہ اس نے 1970 میں کیا تھا۔‘
مسعود خان نے کہا کہ ’ہم سیلاب اور کوڈ کے دوران امریکہ کے تعاون کے لیے ممنون ہیں۔‘
ماضی میں پاک امریکہ شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ نے اپنی ترجیحات طے کی تھیں جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مشترکہ تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے ایک اتحاد بنائیں گے جن میں افغانستان میں جارحیت ختم کرنا اور دہشت گردی کا مقابلہ شامل تھا۔
’اگر آپ اس میں سے کسی ایک اتحادی کو نکال دیں تو نتیجہ بالکل مختلف ہوگا۔‘
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران ہم ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ میں قیام امن کی کوششوں میں اتحادی رہے ہیں۔
’اس عرصے کے دوران ہم نے خطے اور بین الاقوامی امن کے قیام اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کی ہیں۔
’امریکہ نے ہزاروں جانیں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں کھوئی ہیں اور پاکستان نے 80 ہزار سے زیادہ شہریوں اور فوجیوں کی قربانی دی ہے۔ زخم تازہ ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ آزادی کا دفاع ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے۔
’افغانستان سے امریکی افواج انخلا کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ختم ہوگئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور ان میں دوبادہ جان پڑگئی ہے۔‘
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کی پاکستان کے امور کی نگران الزبتھ ہوسٹ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے تجویز کردہ اصلاحات پر آگے بڑھے جو تعطل کا شکار ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے معاشی بحران کے پیش نظر اس معاملے میں تکنیکی مدد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
پاکستان نے 2019 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر دستخط کیے تھے لیکن ملک کی شرائط سے منحرف ہونے کی وجہ سے نصف سے بھی کم رقم جاری کی گئی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی پاکستان کے امور کی نگران الزبتھ ہوسٹ نے جمعرات کو کہا کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف نے جن اصلاحات پر اتفاق کیا ہے وہ آسان نہیں ہیں، لیکن مزید قرضوں میں گھرنے سے بچنے اور پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان یہ اقدامات کرے تاکہ ملک کو مضبوط مالیاتی بنیادوں پر واپس لایا جا سکے۔‘
Addressed a large gathering @TheWilsonCenter on “The Future of Pak-US Relations.” Powerful statement by @State_SCA PDAS @ElizabethKHorst. Thank you @MichaelKugelman and Ghazanfar Hashmi. Impressive cast of panelists, rich ambience. Bright prospects for Pak-US relations. pic.twitter.com/9YepELuB4y
— Masood Khan (@Masood__Khan) April 27, 2023
پاکستانی سفیر مسعود خان بھی ولسن سینٹر کی اس تقریب میں موجود تھے اور انہوں نے بھی خطاب کیا تھا۔ بعد میں الزبتھ ہورسٹ اور دیگر منتظمین کے ساتھ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان امریکہ تعلقات کے بہتر مستقبل کی نوید سنائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ولسن سینٹر کے تھنک ٹینک میں کہا کہ ’امریکہ تکنیکی مصروفیات اور مدد کے ذریعے پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا، خاص طور پر جب پاکستان کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنے کی ترغیب دینے کی بات ہو جو کھلے اور منصفانہ اور شفاف کاروباری ماحول کو فروغ دے سکیں۔‘
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنی قابل رحم طور پر کم ٹیکس بیس کو وسیع کرے، برآمدی شعبے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ ختم کرے اور کم آمدنی والے خاندانوں کی مدد کے لیے مصنوعی طور پر کم پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔
امریکہ آئی ایم ایف میں سب سے بڑا تعاون کرنے والا ملک ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات ہیں، جو سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران ایک اتحادی ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کے طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات برقرار ہیں۔
پاکستان نے اس ماہ کے شروع میں دو قریبی شراکت داروں، چین اور متحدہ عرب امارات سے 1.3 ارب ڈالر کی امداد میں اضافے کا اعلان بھی کیا ہے۔